1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قاہرہ کے ہزاروں مظاہرین کا احتجاج جاری

24 نومبر 2011

مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں فوجی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف مظاہرین التحریر چوک میں مسلسل چھٹی رات پولیس کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے رہے۔ مصر کی سیاسی فضا عدم استحکام سے عبارت ہے۔

https://p.dw.com/p/13GF0
تصویر: dapd

مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے۔ اس دوران فائرنگ کی آوازیں بھی سنائی دی ہیں۔ مظاہرین کی جانب سے پولیس پر پتھراؤ کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ قاہرہ کے تحریر اسکوائر میں ختم ہونے والی رات کے دوران ہزاروں افراد جمع رہے۔

التحریر چوک کے ہزاروں احتجاجی حالیہ مظاہروں میں تیس سے زائد افراد کی ہلاکت اور فوج کی ریفرنڈم کی تجویز پر احتجاج کر رہے ہیں۔ مظاہرین کو شک ہے کہ فوج انتخابی عمل کے دوران جعلی ووٹ بھگتانے کے علاوہ جیتنے والی پارٹی کو اقتدار کی منتقلی میں تاخیر کر سکتی ہے۔ حسنی مبارک کے زوال کے ایام میں مصری مظاہرین کا جو فوج پر اعتماد بڑھا تھا وہ حالیہ مظاہروں کے دوران زائل ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ مظاہرین عبوری اقتدار بھی سویلن ہاتھوں میں دیکھنے کے متمنی ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ فوجی کونسل ختم کر دی جائے۔

Mohamed Hussein Tantawi Vorsitzender des Obersten Rats der Streitkräfte in Ägypten
فوجی کونسل کے سربراہ فیلڈ مارشل محمد حسین طنطاویتصویر: dapd

بدھ کے روز بھی چار افراد کی ہلاکتوں کو رپورٹ کیا گیا ہے۔ التحریر چوک کے پہلو میں عبوری طبی امداد کے لیے قائم مرکز کے ڈاکٹر طارق سلیم کے مطابق بدھ کے روز ان کے ایمرجنسی ہسپتال میں چار لاشیں لائی گئی تھیں۔ ان میں دو افراد کے جسموں پر گولیوں کے زخم تھے جب کہ دیگر دو دم گھٹ جانے کے باعث ہلاک ہوئے تھے۔ ڈاکٹر طارق سلیم کے مطابق تازہ مظاہروں کے دوران تین نوجوان رضاکار ڈاکٹروں کی بھی ہلاکت ہو چکی ہے۔ التحریر چوک کے مظاہرین کے خلاف پولیس کی جانب سے براہ راست فائر کرنے کی تردید کر دی گئی ہے۔ وزیر داخلہ منصور العیسوی نے سرکاری ٹیلی وژن پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ پولیس کی جانب سے صرف آنسو گیس پھینکی گئی ہے اور ہلاکتیں نامعلوم افراد کی فائرنگ کا شاخسانہ ہیں۔

دارالحکومت قاہرہ سے پھوٹنے والے مظاہروں کی گونج مصر کے طول و عرض میں محسوس کی جا رہی ہے۔ مصر کے دوسرے بڑے شہر اسکندریہ کے علاوہ پورٹ سعید میں بھی ہزاروں افراد نے فوجی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف اور قاہرہ کے مظاہرین کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے لیے ریلی کا بندو بست کیا۔ مشرقی شہر سوئز میں بھی حکومت مخالف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ نہر سوئز کے کنارے پر واقع شہر اسماعیلیہ میں ایک احتجاجی کی ہلاکت کو رپورٹ کیا گیا ہے۔

Kairo Proteste Tahrir Platz gegen Militärrat in Ägypten
تحریر چوک کے مظاہرین پولیس کے مد مقابلتصویر: dapd

ایک اور پیشرفت میں قاہرہ کے پراسیکیوٹر جنرل نے مظاہروں میں حصہ لینے پر تین امریکی طلبہ کو تفتیش کی غرض سے چار روز تک زیر حراست رکھنے کا حکم دیا ہے۔ تینوں طلبہ قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔ انہیں پیر کو تحریر اسکوائر میں دیگر مظاہرین کے ہمراہ گرفتار کیا گیا تھا۔

دوسری جانب مصر کے وزیر داخلہ منصور العیسوی نے 28 نومبر کو ہونے والے انتخابات ملتوی کرنے کی تجویز دی ہے۔ العیسوی کی تجویز کو عرب ٹیلی وژن چینل الجزیرہ نے بعض ذرائع کے حوالے سے نشر کیا ہے۔ مصر میں تین ماہ کے عرصے پر محیط انتخابی عمل کا آغاز اگلی پیر سے ہو رہا ہے۔ مبصرین کے خیال میں انتخابات میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ مذہبی جماعت اخوان المسلمون اور فوج کی حامی جماعتوں کی جانب سے متوقع ہے۔ اس باعث یہ دونوں طبقے انتخابات کے اٹھائیس تاریخ سے انعقاد کے حامی ہیں۔ مصر کی جدید تاریخ میں یہ پہلے آزادانہ انتخابات ہوں گے۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: حماد کیانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں