1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قبائلی علاقے وزیرستان میں طالبان کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں

25 جون 2008

پاکستان میں طالبان چھاپہ ماروں نے حکومت کے حامی کم از کم اٹھائیس افراد کو ہلاک کر دیا ہے۔ اِن کا تعلق چالیس افراد کے اُس گروپ سے ہے، جسے پیر کے روز اغوا کر لیا گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/EQqj
اِس فائل فوٹو میں نظر آنے والے طالبان رہنما عبداللہ محسود نے گذشتہ برس گرفتاری سے بچنے کے لئے ایک گرینیڈ کی مدد سے خود کو دھماکے سے اڑا دیا تھا۔ آج کل طالبان کی قیادت اُنہی کے بھائی بیت اللہ محسود کر رہے ہیں۔تصویر: AP

گولیوں کے نشانات کی حامل یہ لاشیں بدھ کے روز ملی ہیں۔ طالبان نے حکومت کے حامی اِن افراد کو پیر کے روز جنڈولہ کے مقام پر اپنے حملے کے دوران اغوا کیا تھا۔ پیر اور منگل کے روز حکومت کے حامی قبائل اور پاکستانی طالبان کے قائد بیت اللہ محسود کے جنگجوؤں کے درمیان لڑائی میں کم از کم بارہ افراد ہلاک ہوئے۔

قتل ہونے والے قبائلی باشندے اِس علاقے میں امن و امان برقرار رکھنے اور طالبان کے ساتھ بات چیت کے سلسلے میں حکومت کی مدد کر رہے تھے۔ بیت اللہ محسود کو گذشتہ پندرہ مہینوں کے دوران ہونے والے درجنوں خود کُش دھماکوں کے لئے قصور وار قرار دیا جاتا ہے، جن میں وہ حملہ بھی شامل ہے، جس میں سابق پاکستانی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو موت کا شکار ہوئیں۔

تاہم بیت اللہ محسود نے بے نظیر بھٹو کی ہلاکت اور پاکستان میں ایک نئی حکومت کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد اپنے حامیوں کو سیکیورٹی فورسز پر حملے بند کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ تاہم یہ کمزور سی فائر بندی اِس علاقے میں پُر تشدد واقعات کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ طالبان اور صوبہء سرحد کی حکومت کے مابین امن مذاکرات میں تعطل کے بعد سے طالبان کی کارروائیاں تیز تر ہوتی جا رہی ہیں۔