1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قحط کے خلاف جنگ کے لیے ایک نیا ریسرچ پروگرام

4 اگست 2011

فرانس میں قائم بین الاقوامی زرعی تحقیق سے متعلق ایک مشاورتی گروپ CGIAR کے اہم ترین مقاصد میں دنیا بھر سے بھوک اور غربت کا خاتمہ اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے زراعت پر پڑنے والے اثرات کو کم کرنا شامل ہے۔

https://p.dw.com/p/12B68
دنیا سے بھوک کے خاتمے کا اقوام متحدہ کا میلینیم ہدف پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہاتصویر: dapd

The Consultative Group on International Agriculture نے قرن افریقہ کے خطے میں پائی جانے والی خشک سالی، قحط اور بھوک کے پس منظر میں ایک نئی تحقیقی مہم شروع کی ہے۔ اس کا مقصد دنیا بھر میں خوراک کو محفوظ بنانا ہے جبکہ اس پروجیکٹ پر کروڑوں ڈالر لی لاگت آئے گی۔

بحیرہء روم کے ساحل پر واقع فرانسیسی شہروں میں سے سب سے بڑا ’موں پیلئیر‘ ہے۔ جنوبی فرانس کی یہ خوبصورت وادی کئی اعتبار سے مشہور ہے۔ اسی شہر میں بین الاقوامی زراعت سے متعلق تحقیقی مشاورتی گروپ CGIAR کی بنیاد 1971 میں رکھی گئی تھی۔ تب اس کا مقصد منطقہ حارہ پر واقع اور ذیلی حاری ممالک میں پائی جانے والی خوراک کی قلت سے نمٹنا، فصلوں کی پیداوار میں اضافہ اور مویشی پالنے کے عمل کو بہتر بنانا تھا۔ 40 سال کے اندر اس ادارے نے ایک ایسے بین الاقوامی نیٹ ورک کی شکل اختیار کر لی، جس کی 15 شاخیں دنیا کے چار مختلف براعظموں میں قائم ہو چکی ہیں اور یہ سب وہاں قومی حکومتوں اور غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ CGIAR نے روایتی فصلوں کی پیداوار کو بہتر بنانے پر تمام توجہ مرکوز رکھنے کے بجائے عالمی سطح پر زراعتی شعبے کی مختلف شاخوں، جن میں پانی، مٹی، حیاتی تنوع اور موسمیات بھی شامل ہیں، کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کر کے ان کے مابین اشتراک عمل کو فروغ دینے کا فیصلہ کیا۔

Somalia Hungersnot Lager Flüchtlingslager Kind
افریقہ کا بھوک کا بحران تمام دنیا کے لیے ایک المیہتصویر: dapd

CGIAR کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ’لئوڈے لوپاژِ‘ کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں ایک بلین سے زائد انسان فاقہ کشی کی حالت میں ہیں۔ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے سبب انسانوں کو کافی خوراک فراہم کرنے کا چیلنج اس وقت جتنا بڑا ہے، اِس سے پہلے کبھی نہیں تھا۔

لئیو ڈے لوپاژ کہتے ہیں،’قرن افریقہ میں پایا جانے والا قحط ایک اہم مثال ہے، اس طرح کے مسائل سے نمٹنے کے لیے پیشگی تیاری کرنے کی۔ خشک سالی کی وجہ موسم کی صورتحال ہوتی ہے، جبکہ غذا کی کمیابی یا بھوک کے بحران کے پیچھے سیاسی عوامل کار فرما ہوتے ہیں اور ایسی صورتحال بھی، جس سے بروقت نمٹا جائے تو خوراک کی کمی سے بچا جا سکتا ہے‘۔

The Consultative Group on International Agriculture کے نئے پروگرام کا ہدف دنیا کے ایسے خطے ہیں، جہاں کروڑوں غریب انسانوں کے روزگار کو غذا کے بحران کی بار بار سنگین ہوتی ہوئی صورتحال، عالمی مالیاتی بحران، توانائی کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتوں، قدرتی وسائل کے بہت زیادہ اور ناجائز استعمال اور موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید خطرات لاحق ہیں۔

Flash-Galerie Grüne Woche Erlebnis-Bauernhof
ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی زراعت پر اثر انداز ہوتی ہےتصویر: picture alliance / dpa

Lloyd le Page کا اس بارے میں کہنا ہے،’اب تک کی پیشگوئی کے مطابق 2050ء تک گندم کی مانگ میں 60 فیصد اضافہ ہو جائے گا جبکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب گیہوں کی پیداوار میں 20 سے 30 فیصد تک کی کمی ہو سکتی ہے۔ ہم اسی گندم کی مختلف اقسام، جن کی پیداوار زیادہ سے زیادہ ہو سکے، تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ زیادہ تر گیہوں کی کاشت ترقی یافتہ ممالک سے باہر ہوتی ہے۔ یہ امر بہت سے لوگوں کے لیے تعجب کا باعث ہے۔ مزید یہ کہ گیہوں اب بھی متوسط درجے کے اور چھوٹے کسان پیدا کرتے ہیں۔ بہرحال ہم خاص طور سے گندم کی پیداوار میں اضافہ چاہتے ہیں‘۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ گیہوں اور دیگر فصلوں کو مختلف بیماریوں سے بچانا محض ترقی پذیر ممالک کے لیے ہی ایک مسئلہ نہیں ہے۔ موسمیاتی زونز کی منتقلی اور کیڑوں اور بیماریوں کے فصلوں پر حملے، نئے علاقوں، مثلاً اونچائی پر واقع شمالی علاقوں کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔

CGIAR کے نئے ریسرچ ایجنڈا میں گوشت اور ڈیری فارمز کی پیداوار میں اضافہ بھی شامل ہے۔

رپورٹ: آئرِین کُوئیل / کشور مصطفیٰ

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں