1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قندوز ميں بمباری کے دو سال بعد، افغانوں کا جرمن حکومت سے گلہ

5 ستمبر 2011

افغانستان ميں قندوز کے قريب پٹرول سے لدے دو ٹرکوں پر جرمن فوج کی ہدايت پر کی جانے والی بمباری کو دو سال بيت چکے ہيں۔ اس فضائی بمباری ميں بچوں سميت بہت سے افغان شہری ہلاک اور زخمی ہو گئے تھے۔

https://p.dw.com/p/12TLL
قندوز کی تعمير نو
قندوز کی تعمير نوتصویر: DW

 طالبان کے اغواکردہ دو آئل ٹينکرز پر بمباری سے ہلاک اور زخمی ہونے والوں کے عزيز و اقارب جرمن حکومت پر يہ سنگين الزام لگا رہے ہيں کہ اُس نے اُنہيں صرف معمولی سی رقم پر ٹرخا ديا ہے اوران ہلاکتوں پر کسی نے معافی تک بھی نہيں مانگی ہے۔

عبدالحنان کی خواہش تھی کہ اُس کے بچے اعلٰی تعليم حاصل کريں، ليکن چار ستمبر سن 2009 کے دن يہ خواب چکنا چور ہو گيا: ’’ان کی ياديں ہميشہ ميرے ساتھ رہتی ہيں۔ ميں جب دوسرے لڑکوں کو اسکول جاتے ديکھتا ہوں تو سوچتا ہوں، کاش ميرے لڑکے اور بھتيجہ بھی اس وقت اسکول جا تے ہوتے۔‘‘

فضائی بمباری سے تباہ ہونے والے آئل ٹينکر کے گرد پہرہ
فضائی بمباری سے تباہ ہونے والے آئل ٹينکر کے گرد پہرہتصویر: AP

عبدالحنان کے بيٹے تيسری اور چوتھی کلاس ميں پڑھ رہے تھے۔ بھتيجہ پانچويں جماعت کا طالبعلم تھا۔ وہ بموں کی اُس بارش ميں مارے گئے، جو امريکی طياروں نے جرمن فوج کی ہدايت پر طالبان کے ہاتھوں اغواشدہ دو آئل ٹينکرز پرکی تھی۔ يہ فضائی حملے ان ہی جرمنوں نے کروائے تھے، جنہيں اب تک بہت محتاط سمجھا جاتا تھا۔ بہت سے ذرائع ابلاغ نے لکھا کہ اس حملے کی وجہ سے جرمنوں کی معصوميت کا ايک حد تک خاتمہ ہو گيا۔

عبدالحنان نے کہا کہ ہم غريب لوگ ہيں۔ ہمارے پاس کوئی ٹينک اور لڑاکا طيارے نہيں کہ ہم بم گرانے اور بمباری کا مطالبہ کرنے والوں سے بدلہ لے سکيں۔ ليکن ہم چاہتے ہيں کہ عدالت ان قاتلوں سے پوچھے کہ انہوں نے ہم پر يہ ظلم کيوں کيا؟

حاجی بصير کے بھی تين لڑکے اس حملے ميں ہلاک ہوئے تھے۔ اُس کا بھی يہی کہنا ہے کہ جرمن حکومت نے اس سلسلے ميں بہت کم ہی کوشش کی ہے: ’’ميں نے جرمنوں سے اس بارے ميں کچھ بھی نہيں سنا ہے: معذرت کا ايک لفظ بھی نہيں۔ انہوں نے ہم سے بات تک نہيں کی ہے۔‘‘

قندوز ميں جرمن فوجی قافلے پر حملہ
قندوز ميں جرمن فوجی قافلے پر حملہتصویر: dapd

 برلن ميں جرمن وزارت دفاع نے ہر متاثرہ خاندان کو صرف 5000 ڈالر ادا کيے ہيں۔ جرمن اس بات پر زور ديتے ہيں کہ يہ مدد ہے معاوضہ نہيں، کيونکہ اگر اسے معاوضہ کہا گيا تو يہ اس بات کا اعتراف ہو گا کہ بمباری کے ليے امريکی طياروں کو طلب کرنا دراصل جرمن فوجی افسرکی غلطی تھی۔

آج يہ ثابت ہو چکا ہے کہ شروع ميں جرمن حکومت کے دعووں کے برعکس مرنے والے، طالبان کے بجائے زيادہ تر گاؤں کے رہنے والے تھے، جوآئل ٹينکرز سے پٹرول بھرنے کی اميد پر اُن کے گرد جمع تھے۔

حاجی بصير نے کہا کہ اکثر گھرانے اپنی کفالت کرنے والے مردوں سے محروم ہو چکے ہيں اور ويسے بھی کيا پانچ ہزار ڈالربھلا ايک انسانی جان کی قيمت ہو سکتے ہيں؟

رپورٹ: کائی کيوستنر، نئی دہلی / شہاب احمد صديقی

ادارت: مقبول ملک     

 

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں