1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قندوز میں حملہ: جرمن اَفواج کے سربراہ مستعفی

26 نومبر 2009

جرمن وزیر دفاع کارل تھیوڈور سُو گٹن برگ نے آج جرمن پارلیمان میں اِس بات کا اعتراف کیا کہ افغان صوبے قُندوز میں آئل ٹینکرز پر متنازعہ بمباری کے حوالے سے جرمن وزارتِ دفاع کئی اہم معلومات جان بوجھ کر منظرِ عام پر نہیں لائی۔

https://p.dw.com/p/Kh0s
تصویر: AP

وفاقی جرمن وزیردفاع کارل تھیوڈورسُو گٹن برگ نے کہا کہ اِسی وجہ سے جرمن اَفواج کے سربراہ وولف گانگ شنائیڈر ہان اورایک اوراعلیٰ فوجی عہدیدار کو اُن کے عہدوں سے سبکدوش کر دیا گیا ہے۔

جمعرات کو جرمنی کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے اخبار ’’بِلڈ‘‘ کے پہلے صفحے پر بڑی بڑی شہ سُرخیوں میں یہ بتایا گیا تھا کہ جرمن وزارتِ دفاع کو ستمبر میں افغان صوبے قُندوز میں طالبان کے زیرِ قبضہ آئل ٹینکروں پر فضائی بمباری اور اِس واقعے میں عام شہریوں کی ہلاکت کے بارے میں اہم حقائق کا علم تھا، تاہم اِن حقائق کو اب تک عوام سے چھپایا گیا۔ اِن شہ سُرخیوں کی بازگشت آج جرمن پارلیمان میں بھی سنی گئی، جہاں افغانستان میں جرمن فوجی مشن میں توسیع سے متعلق عام بحث ہو رہی تھی۔ یہ بحث اُس وقت ہنگامہ خیز شکل اختیار کر گئی، جب وفاقی جرمن وزیر دفاع کارل تھیوڈور سُو گٹن برگ نے یہ اعتراف کیا کہ درحقیقت ایک خفیہ تحقیقاتی رپورٹ تھی، جو وَزارتِ دفاع کا قلمدان سنبھالتے وقت خود اُن سے بھی پوشیدہ رکھی گئی: انہوں نے کیا: ’’جب مَیں نے قُندوز کے واقعے کے بعد جاری کردہ آئی سیف رپورٹ پر اپنا بیان دیا تھا، تب مجھے بِلڈ اخبار میں شائع ہونے والی اِس خفیہ تحقیقاتی رپورٹ کا علم نہیں تھا۔ یہ رپورٹ مجھے کل پہلی مرتبہ دکھائی گئی ہے۔ جرمن اَفواج کے سربراہ نے مجھے درخواست کی ہے کہ اُنہیں اُن کی ذمہ داریوں سے ہٹا دیا جائے، اِسی طرح اسٹیٹ سیکریٹری وِشَرٹ نے بھی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔‘‘

Bundesverteidigungsminister Karl-Theodor zu Guttenberg, lEx- Bundesverteidigungsminister Franz Josef Jung
موجودہ اور سابقہ جرمن وزراء دفاع پارلیمان میںتصویر: AP
Generalinspekteur Wolfgang Schneiderhahn Flash-Galerie
جرمن فوج کے سربراہ نے مستعفی ہونے کا اعلان کیاتصویر: AP

اپنے عہدوں سے رخصت ہونے والے جرمن اَفواج کے سربراہ وولف گانگ شنائیڈرہان اور وَزارتِ دفاع کےایک اسٹیٹ سیکریٹری پیٹر وِشَرٹ نے یہ تسلیم کرلیا کہ درحقیقت فرانس یوزیف یُنگ کی جگہ نئے وزیر دفاع بننے والے کارل تھیوڈورسُو گٹن برگ کواِن حقائق سے بے خبر رکھا گیا تھا اوروہ دونوں اِس کوتاہی کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔

یہ حملہ چار ستمبر کو ہوا اورچار ستمبر کو ہی افغانستان متعینہ جرمن فوج کی طرف سے برلن میں وَزارتِ دفاع کو یہ بتا دیا گیا تھا کہ مرنے والوں میں ’’واضح طور پر عام شہری بھی‘‘ شامل ہیں اور یہ کہ اِس حملے میں زخمی ہونے والے دَس تا بیس برس کے چھ مریضوں کا علاج کیا جا رہا ہے۔ تاہم چھ ستمبر کو اُس وقت کے وزیر دفاع یُنگ ابھی اِس بیان پر ڈٹے ہوئے تھے کہ غالباً کوئی عام شہری اِس حملے میں ہلاک یا زخمی نہیں ہوئے۔

موجودہ وزیر دفاع سُو گٹن برگ نے اگرچہ یُنگ کو براہِ راست ہدفِ تنقید نہیں بنایا، تاہم اُنہوں نے کہا:’’یہ بات طے ہے کہ اِن رپورٹوں کا فوری طور پر تجزیہ کیا جائے گا اور یہ تمام پارلیمانی احزاب کو فراہم کی جائیں گی۔ یہی میرے خیال میں شفافیت اور اِس طرح کے واقعات کا تقاضا بھی ہے۔ یہی رپورٹ دفترِ استغاثہ کے بھی حوالے کر دی جائے گی۔‘‘

ایسے میں اپوزیشن کی جانب سے بھی فرانس یوزیف یُنگ پر، جو موجودہ مخلوط حکومت میں وزیرِ محنت ہیں، اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کے لئے دباؤ بڑھ گیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے فوری طور پر ایک پارلیمانی تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل کا مطالبہ کیا ہے۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: مقبول ملک