1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قومی مفاہمتی آرڈیننس پارلیمان میں پیش نہیں ہوگا

4 نومبر 2009

قومی مصالحتی آرڈیننس یعنی NROکی پارلیمان سے منظوری کے معاملے پر اپوزیشن کےجارحانہ رویہ اپنانے کے بعد حکومت کی سب سے بڑی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کی مخالفت نے بالآخر حکمران پیپلز پارٹی کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔

https://p.dw.com/p/KMJO
صدرآصف علی زرداری فائل فوٹوتصویر: pa / dpa

این آر او کے حوالے سے پیر کے روز دن بھر جاری رہنے والی سیاسی ہنگامہ آرائی کے بعد رات گئے ایوان صدر میں صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں پیپلز پارٹی کا ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد کیا گیا۔ اس اجلاس کے بعد ایوان صدر سے جاری کئے گئے اعلامیے میں کہا گیا کہ پارٹی رہنماؤں نے باہمی مشاورت سے NRO کو پارلیمنٹ میں پیش نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

Pakistan Ehemaliger Premierminister Nawaz Sharif
نواز شریف نے واضح الفاظ میں این آر او کی مخالفت کیتصویر: AP

اس سے پہلے پیر ہی کے روز مسلم لیگ نواز کے قائد میاں نواز شریف نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے این آر او کے خلاف سخت موقف اپنایا اور پیپلز پارٹی خصوصاً صدر آصف علی زرداری کو اس آرڈیننس کی پارلیمنٹ سے منظوری کا خیال دل سے نکالنے کا مشورہ دیا: ’’حکمران، اپوزیشن، پارلیمنٹ، سیاست اور قوم کو امتحان میں نہ ڈالیں کیونکہ اگر ہمیں امتحان میں ڈالا گیا تو ہم اپنا کردار ادا کرنے سے پیچھے نہیں رہیں گے اور پارلیمنٹ کے ماتھے پر این آر او کی منظوری کا داغ نہیں لگنے دیں گے۔‘‘

اسی دوران ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کے اس بیان نے پیپلز پارٹی کو مزید سیاسی دباؤ کا شکار کر دیا، جس میں انہوں نے این آر او پر صدر زرداری اور ان کے ساتھیوں سے قربانیوں دینے کا مطالبہ کیا۔ غالباً اسی صورتحال کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے وزیراعظم گیلانی نے این آر او کو پارلیمنٹ سے منظور نہ کرانے کے باقاعدہ فیصلے سے قبل ہی قومی اسمبلی کے اجلاس میں مفاہمانہ رویہ اپناتے ہوئے کہا: ’’ہماری یہ کوشش ہو گی کہ تمام ساتھیوں کو ساتھ لے کر چلیں اور ملک میں جمہوریت کو قائم رکھیں۔ میں ایک بار پھر یقین دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ ہم پورے ایوان کو ساتھ لے کر چلیں گے اور سب ہمارے ساتھ ہیں۔‘‘

آئینی ماہرین کے مطابق پارلیمان سے عدم منظوری کی صورت میں این آر او اپنی مقررہ مدت کے بعد کالعدم ہو جائے گا اور اس کے تحت ریلیف حاصل کرنے والے ہزاروں با اثر افراد کے خلاف مقدمات کی سماعت دوبارہ شروع ہو جائے گی البتہ صدر آصف علی زرداری کو ان کی آئینی حیثیت کے سبب ان مقدمات کا سامنا کرنے سے تحفظ حاصل ہوگا۔

رپورٹ : شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت : عاطف توقیر