1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قیمت پر تنازعہ، پاکستان میں تپ دق کی دوائی نایاب

افسر اعوان20 جولائی 2016

سوئس دوا ساز کمپنی نوارٹس کے مطابق اس نے پاکستان میں قیمتوں کے حوالے سے تنازعے کے باعث تپ دق یا ٹی بی کی دوائی کی تیاری روک دی ہے۔ اس پیشرفت کے باعث پاکستان میں ٹی بی کی دوائی کی قلت کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1JSQh
تصویر: picture alliance/AP Photo

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستان تپ دق کے مریضوں کی شرح کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ دنیا کے کئی دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ایک مرکزی ادارہ ’ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان‘ (DRAP) قریب 320 اہم ادویات کی قیمتوں کا تعین کرتا ہے۔ تاہم بہت سی دوائیوں کی زیادہ سے زیادہ قیمت میں 2001ء کے بعد سے کوئی اضافہ نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے بہت سی ادویہ ساز کمپنیوں کے لیے اس کی تیاری مشکل ہو گئی ہے۔

یہ مسئلہ خاص طور پر تپ دق سے متعلق ادویات کے حوالے سے شدید ہو چکا ہے۔ پاکستان میں 20 ادویہ ساز اداروں کے ایک تجارتی گروپ ’فارما بیورو‘ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر عائشہ حق کے مطابق ملک میں ٹی بی کی ادویات تیار کرنے کا لائسنس 18 کمپنیوں کے پاس ہے مگر ان میں سے صرف چار اس وقت یہ ادویات تیار کر رہی ہیں جن میں نوارٹس بھی شامل ہے۔

پاکستان کی کُل 190 ملین کی آبادی میں سے قریب پانچ لاکھ افراد ہر سال تپ دق میں مبتلا ہو جاتے ہیں
پاکستان کی کُل 190 ملین کی آبادی میں سے قریب پانچ لاکھ افراد ہر سال تپ دق میں مبتلا ہو جاتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/A. Arbab

ڈاکٹروں اور صحت سے متعلق حکام کا کہنا ہے کہ ان ادویات کی کمیابی سے اس بات کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ لاکھوں ایسے مریضوں کو ان کے جاری علاج کے دوران ہی یہ ادویات ملنا بند ہو سکتی ہیں، جس کی وجہ سے تپ دق کی ایسی اقسام پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا جو ادویات کے خلاف مزاحمت رکھتی ہوں۔ ٹی بی کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی ادویات میں اینٹی بائیوٹیکس کے علاوہ مریضوں کو لاحق صحت کے حوالے سے دیگر پیچیدگیوں کے علاج کی ادویات بھی شامل ہوتی ہیں۔

کراچی میں وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر نسیم صلاح الدین کے مطابق، ’’یہ مسئلہ ایک ایمرجنسی کی صورتحال اختیار کر سکتا ہے۔‘‘

عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان کی کُل 190 ملین کی آبادی میں سے قریب پانچ لاکھ افراد ہر سال تپ دق میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ملتان کے ایک رہائشی رانا افتخار انجم کے مطابق انہیں اپنی 15 سالہ بھتیجی کے لیے تپ دق کی ادویات تلاش کرنے میں ہفتوں لگ جاتے ہیں۔ جبکہ اسلام آباد کے ایک بڑے ہسپتال سے بطور فارماسسٹ منسلک محمد رفیق کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے بھائی کے لیے ایک حکومتی ہسپتال سے یہ ادویات حاصل کرنے کے لیے دو ہزار روپے بطور رشوت ادا کرنا پڑتے ہیں۔

ادویات کی کمیابی سے تپ دق کی ایسی اقسام پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا جو ادویات کے خلاف مزاحمت رکھتی ہوں
ادویات کی کمیابی سے تپ دق کی ایسی اقسام پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا جو ادویات کے خلاف مزاحمت رکھتی ہوںتصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer

نوارٹس کے ترجمان ڈیرموٹ ڈوہرتھی کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی جو پاکستان میں ٹی بی سے متعلق ادویات کی مارکیٹ کا قریب 30 فیصد حصہ رکھتی ہے، پاکستان میں یہ کاروبار چھوڑنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ اس کمپنی کے پاکستان میں ریگولیٹری معاملات کے انچارج احسن رئیس نے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان ادویات کی تیاری روکنے کی وجہ قیمتوں کے معاملے پر پیدا ہونے والا تنازعہ ہے: ’’اگر انہوں نے ہمیں قیمتیں بڑھانے کی اجازت دی ہوتی تو ہم نے یہ کام کبھی نہ کیا ہوتا۔‘‘