1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قینچی سے وار کرنے والی ٹین ایجر ہلاک

کشور مصطفیٰ23 نومبر 2015

پیر 23 نومبر کو یروشلم کے مرکز میں ایک سولہ سالہ فلسطینی لڑکی کو پولیس نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اس لڑکی نے ایک قینچی سے ایک فلسطینی ہی پر وار کیا تھا جس کے نتیجے میں اُسے معمولی زخم آئے تھے۔

https://p.dw.com/p/1HAkU
تصویر: Getty Images/AFP/M. Kahana

اسرائیلی ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق واقعہ مشرقی اور مغربی یروشلم کے درمیان واقع جافا روڈ پر رونما ہوا۔ اس علاقے میں عرب اور یہودی ایک عرصے سے اکٹھے رہ رہے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ اتنے باہمی تعاون اور ہم آہنگی سے کام کرتے ہیں کہ اکثر ان میں تمیز کرنا مشکل ہوتا ہے۔

اس ٹین ایجر فلسطینی لڑکی کے ہاتھوں قینچی سے زخمی ہونے والا 70 سالہ شخص بھی فلسطینی ہی تھا اور اس پر اُسی پولیس آفیسر نے گولی چلائی، جس نے حملہ آور ایک دوسری لڑکی کو بھی زخمی کیا تھا۔ یہ دونوں لڑکیاں آپس میں رشتے دار ہیں۔ دوسری لڑکی کی عمر 14 برس تھی اور اُس کے ہاتھ میں بھی ایک قینچی تھی، جس سے اُس نے بھی حملے کی کارروائی میں حصہ لیا تھا۔

یکم اکتوبر سے تشدد کی اس لہر میں اب تک 84 فلسطینی ہلاک ہو چُکے ہیں۔ چند چاقوؤں کے وار یا حملہ کرتے ہوئے اور دیگر اسرائیلی فوج کے ساتھ تصادم میں۔ اُدھر فلسطینیوں کی طرف سے چاقو کے وار، فائرنگ اور تصادم کے نتیجے میں 19 اسرائیلی اور ایک امریکی طالبعلم بھی ہلاک ہوا ہے۔

آج یروشلم میں ہونے والا دہشت گردی کا واقعہ ایک ایسے وقت میں رونما ہوا ہے جب منگل کو امریکی وزیر خارجہ جان کیری اسرائیلی اور فلسطینی علاقوں کے دورے پر پہنچنے والے ہیں۔ امریکی وزیر اپنے اس دورے کے دوران تشدد کی اس نئی لہر کو ختم کرنے کے لیے طرفین سے مذاکرات کریں گے۔

یکم اکتوبر سے تشدد کی اس لہر میں اب تک 84 فلسطینی ہلاک ہو چُکے ہیں
یکم اکتوبر سے تشدد کی اس لہر میں اب تک 84 فلسطینی ہلاک ہو چُکے ہیںتصویر: Reuters/M. Torokman

ستمبر کے ماہ میں یروشلم میں واقع مسجد اقصیٰ کے نزدیک فلسطینیوں اور اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے مابین جھڑپوں میں متعدد افراد زخمی ہوئے تھے۔ یہ جھڑپیں نئے یہودی سال کے آغاز پر ہوئی تھیں۔ اُس سے ایک ہفتہ قبل اسرائیلی وزیر دفاع موشے یالون نے دو ایسے مسلم گروہوں کو کالعدم قرار دے دیا تھا، جو یہودیوں کو مسجد اقصیٰ والے علاقے یا یہودیوں کے لیے ’ماؤنٹ ٹیمپل‘ کے طور پر مقدس علاقے میں داخل ہونے سے روکنے کی مبینہ کوشش کے مرتکب ہوئے تھے۔

اُدھر فلسطینیوں کے غم و غصے میں اضافے کی وجہ یروشلم میں واقع مسجد اقصیٰ کے احاطے میں یہودیوں کے بڑھتی ہوئی آمد بنی۔ بائبل کی روایات کے مطابق اسی مقام پر یہودیوں کی وہ دو عبادت گاہیں تھیں، جو مدتوں پہلے تباہ ہو گئی تھیں۔ اسرائیل کے ساتھ ہونے والے ایک معاہدے کے تحت مسجد اقصیٰ کے انتظامی امور تو اردن کے اسلامی مذہبی حکام کے ہاتھوں میں ہیں لیکن اسرائیل نے بھی یہودیوں کو مسجد اقصیٰ کے احاطے میں جانے کی اجازت دے رکھی ہے۔ تاہم انہیں وہاں عبادت کی اجازت نہیں ہے۔ 1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ مشرقی یروشلم پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔