1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لاہور بم دھماکہ ، ہلاکتوں کی تعداد 26 ہو گئی

تنویر شہزاد، لاہور28 مئی 2009

پاکستان میں سرکاری حکام نے لاہور بم دھماکے میں 26افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کر دی ہے۔

https://p.dw.com/p/Hzeq
لاہور بم دھماکے میں ہلاک ہونے والے پولیس اہلکار کی آخری رسومات کا منظرتصویر: AP

لاہور پولیس کے سر براہ پرویز راٹھور نے صحافیوں کوبتایا کہ کل ہلاک ہونے والوں کی تعداد 26 ہے جن میں سے 17 پولیس آفیسرز ہیں جن میں1 انسپکٹر، دو اے ایس ائی اور 14 ما تحت آفیسرز شامل ہیں۔ یاد رہے کہ لاہور بم دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں میں آئی ایس آئی کے ایک افسر کرنل عامر بھی شامل ہیں۔

لاہور بم دھماکے کا مقدمہ سول لائن تھانے میں درج کر لیا گیا ہے۔ جمعرات کے روز بھی پولیس نے صوبے کے کئی علاقوں میں سرچ آپریشن جاری رکھا اور ایک درجن سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا۔

لاہور پولیس کے سربراہ پرویز راٹھور نے بتایا کہ پولیس کو بعض ایسے شواہد ملے ہیں جن سے ملزموں تک پہنچنے میں مدد مل سکتی ہے انہوں نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جو بھی شواہد اکٹھے ہوئے ہیں ان کی بنیاد پر بڑی تیزی سے تحقیق ہو رہی ہے۔

بعض اطلاعات کے مطابق تحریک طالبان پنجاب نے لاہور بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ اس واردات کی تحقیقات کرنے والے حکام جمعرات کے روز جائے واردات کا دورہ کر کے شواہد اکٹھے کرتے رہے جبکہ جائے واردات سے ملبہ ہٹانے کا کام ابھی تک جاری ہے۔ بم دھماکے کی جگہ پر لاہور کی ضلعی حکومت نے ایک خصوصی کیمپ لگا رکھا ہے اس کیمپ کے انچارج اور ضلعی حکومت کے سینئر اہلکار محمد عارف نے بتایا : ’’ ہم کل سے یہاں کام کر رہے ہیں اور ملبہ ہٹانے کیلئے مشینری کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ ساری رات میں 200 ملبے کے ٹرک یہاں سے اٹھائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ارد گرد کی بلڈنگوں کے جو شیشے ٹوٹے ہیں وہ بھی سڑکوں پر بکھر گئے تھے ان کو بھی ہٹانے کا کام بڑی تیزی سے جاری ہے۔‘‘

Lahore Pakistan
دھماکے کے مقام پر کئی فٹ بڑا گڑھا پڑ گیاتصویر: AP

بم دھماکے کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب نے سیکیورٹی کے حوالے سے غفلت کا ارتکاب کرنے والے حکام کے بارے میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔ پنجاب حکومت نے تباہ شدہ گاڑیوں اور عمارتوں کا سروے شروع کر دیا ہے۔ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ حکومت متاثرین کے نقصان کے ازالے کے لئے کسی امدادی پیکیج کا اعلان کرے گی۔

جائے واردات کے سامنے واقع گاڑیوں کے ایک شو روم میں موجود خلیل الرحمن نے بتایا کہ کسی وزیر یا مشیر کو ابھی تک متاثرہ تاجروں کا حال پوچھنے کی فرصت نہیں ملی ہے۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ صرف اس کے شو روم میں گاڑیاں اور بلڈنگ کو ملا کر کل ایک کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ ان کے مطابق ابھی تک کسی نے یہ بھی آ کر نہیں پوچھا کہ خدا نہ خواستہ کوئی جانی نقصان یا کوئی زخمی تو نہیں ہوا ہے۔ ان کے مطابق تاجروں کا یہ نقصان حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے ہو رہا ہے اگر حکومت اپنی پالیسیاں ٹھیک کر لے تو دہشت گردی کی وارداتوں میں کمی لانا ممکن ہو سکتا ہے۔

علاقے میں موجود کئی لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ حساس اداروں کے دفاتر شہری آبادیوں سے دور منتقل کئے جانے چاہیں۔ متاثرہ علاقے میں سڑکیں ابھی تک بند ہیں۔کاروباری سرگرمیاں ماند پڑ چکی ہیں اور سکولوں میں چھٹیاں کر دی گئی ہیں۔ صوبے بھر میں حفاظتی انتظامات انتہائی سخت کر دئے گئے ہیں اور لاہور شہر میں داخلے کے لئے استعمال ہونے والے تمام راستوں پر گاڑیوں کی چیکنگ کی جا رہی ہے۔