1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لاہور: سور کے گوشت کی مبینہ سپلائی کی تحقیقات

تنویر شہزاد، لاہور2 ستمبر 2015

پاکستانی صوبہ پنجاب میں اعلٰی سطح پر اس بات کی تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ صوبے کے مختلف علاقوں میں سور کے گوشت کی مبینہ سپلائی کی اطلاعات کی اصل حقیقت کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1GQG8
یہ گوشت راولپنڈی سے ریلوے کارگو کے طور پر لاہور پہنچایا گیا تھاتصویر: Karachi Urban Transport Company

پنجاب کے مختلف علاقوں میں خنزیر کے گوشت کی سپلائی کی خبروں نے پاکستان کے اس سب سے بڑے صوبے میں شدید بے چینی اور اضطراب پیدا کر رکھا ہے۔

تفصیلات کے مطابق اسلامی طور پر حرام قرار دیے گئے گوشت کی لاہور کی مختلف مارکیٹوں میں مبینہ سپلائی کی اطلاع ملنے پر آج بدھ دو سمتبر کی صبح پنجاب فوڈ اتھارٹی کے حکام نے ڈائریکٹر آپریشنز عائشہ ممتاز کی زیر نگرانی لاہور ریلوے اسٹیشن پر چھاپہ مار کر دو من سے زائد مبینہ طور پر سور کا وہ گوشت قبضے میں لے لیا، جسے پلاسٹک کے بڑے بڑے ڈرموں میں رکھ کر راولپنڈی سے ریلوے کی کارگو سروس کے ذریعے لاہور لایا گیا تھا۔

اس موقع پر مال برداری کے لیے استعمال ہونے والی ایک منی وین سمیت گرفتار کیے جانے والے محبوب نامی ایک شخص نے صحافیوں کو بتایا کہ اسے یہ معلوم نہیں ہے کہ حکام کی طرف سے تحویل میں لیا جانے والا گوشت سور کا ہے۔

ادھر راولپنڈی میں پولیس کی حراست میں موجود توصیف نامی ایک شخص نے میڈیا کو بتایا کہ گوشت کے پکڑے جانے والے ڈرم اسی نے بک کرائے تھے۔ اس کے بقول ان ڈرموں میں سور کا گوشت نہیں تھا بلکہ راولپنڈی کے سرکاری مذبحہ خانے سے قانونی طور پر خریدی گئی وہ الائشیں تھیں، جنہیں ذبح کیے جانے والے جانوروں کے گوشت سے الگ کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بقول ذبح کیے جانے والے جانوروں کی یہ الائشیں چمڑے کے کارخانوں کو سپلائی کی جاتی ہیں اور ان کی مدد سے بنایا جانے والا کیمیکل چمڑے کی مصنوعات میں چمک پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

دوسری طرف پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ایک سینئیر افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہیں قابل اعتماد ذرائع سے یہ اطلاعات ملی تھیں کہ ایک منظم گروہ حرام گوشت مارکیٹ میں سپلائی کر رہا ہے۔ ان لوگوں کی کافی عرصے سے نگرانی کی جا رہی تھی۔سور کے گوشت کی کھیپ کو پکڑنے کے لیے کئی دنوں سے ’ریکی‘ کی جا رہی تھی۔ ان کے بقول یہ گوشت متعدد نامور غذائی اداروں کو سپلائی کیے جانے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے جو کہ اسے آئس کریم اور دیگر اشیاء میں استعمال کرتے ہیں۔ ان کے مطابق اس ’گوشت کی بدبو اور شکل سے اس کے حرام ہونے کے خدشے کو تقویت‘ ملتی ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ناغے والے دنوں میں تو راولپنڈی سمیت ملک بھر میں سرکاری سلاٹر ہاؤس بند ہوتے ہیں، پھر یہ مبینہ الائشیں کدھر سے آ گئیں۔

Wildschweine im Wildgehege Mesekendahl
اسلام میں سور کا گوشت حرام قرار دیا گیا ہے اور اسے کھانے کی ممانعت ہےتصویر: picture-alliance/Horst Ossinger

پنجاب فوڈ اتھارٹی نے اس گوشت کے نمونے لیبارٹری ٹیسٹ کے لیے بجھوا دیے ہیں۔ حکام کے مطابق ان ٹیسٹوں کی رپورٹ اگلے تین دنوں میں موصول ہو گی۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کی ڈائریکٹر عائشہ ممتاز نے صحافیوں کو بتایا کہ پکڑے جانے والے گوشت کی ٹیسٹ رپورٹ آنے کے بعد ہی اس بارے میں کوئی حتمی رائے دی جا سکے گی کہ یہ گوشت کس جانور کا ہے۔

ادھر پنجاب کے وزیر اعلٰی شہباز شریف نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ شہریوں کو حرام اور مردار گوشت کھلانے والے عناصر کسی بھی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ ’’ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی اور حرام گوشت بیچنے کا قبیح دھندہ ہر صورت بند کرایا جائے گا۔‘‘ وزیر اعلٰی کے مطابق ہوس زر کی خاطر شہریوں کی زندگیوں سے کھیلنے کی اجازت کسی کو نہیں دے جا سکتی۔

یاد رہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے پنجاب کے مختلف شہروں سے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بعض ایسے لوگ بھی پکڑے ہیں، جو مارکیٹ میں مردہ جانوروں، گدھوں اور گھوڑوں تک کا گوشت سپلائی کر رہے تھے۔

دنیا بھر میں اپنے منفرد ذائقوں کے پکوانوں کی وجہ سے مشہور شہر لاہور میں غذائی اجزاء کے غیر معیاری ہونے اور صفائی اور سٹوریج کے ناقص انتظامات کی وجہ سے اب تک درجنوں ریستورانوں کے خلاف کارروائی کی جا چکی ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ لاہور کے بہت سے علاقوں میں پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں ہے۔ چند علاقوں میں حکومت کی طرف سے لگائے جانے والے فلٹر پلانٹ بھی دیکھ بھال نہ کیے جانے کی وجہ سے غیر فعال ہو چکے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید