1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لاہور میں آبادی کانفرنس

تنویر شہزاد، لاہور4 دسمبر 2008

پاکستان کے ثقافتی شہر لاہور میں آبادی میں اضافے کے حوالے سے ایک تحقیقاتی کانفرنس ہوئی جس میں بڑھتی ہوئی ملکی آبادی سے پیدا ہونے مسائل اور خطرات کا جائزہ لیا گیا۔

https://p.dw.com/p/G9RK
آبادی میں تیزی سے ہونے والے اضافے کواگرنہ روکا گیا تو پھراس کے صحت، تعلیم اور ماحول پر ہی نہیں بلکہ سیکورٹی کی صورتحال پر بھی غیرموافق اثرات رو نما ہوسکتے ہیں۔تصویر: AP

انسانی آبادی میں اضافے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اثرات پر تحقیق کرنے والے ماہرین نے کہا ہے کہ آبادی میں اضافے کے تازہ رجحانات کا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ آبادی میں تیزی سے ہونے والے اضافے کواگرنہ روکا گیا تو پھراس کے صحت، تعلیم اور ماحول پر ہی نہیں بلکہ سیکورٹی کی صورتحال پر بھی غیرموافق اثرات رو نما ہوسکتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار لاہور کے فارمین کرسچن کالج میں ہونے والی پاپولیشن ایسوسی ایشن آف پاکستان کی نویں سالانہ کانفرنس میں کیا گیا۔

جمعرات کے روز اختتام پذیر ہونے والی اس تین روزہ کانفرنس سے کلیدی خطاب کرنے والی آبادی کے امور کی بین الاقوامی ماہراورآبادی کے حوالے سے کام کرنے والی ایک غیرسرکاری تنظیم پاپو لیشن ایکشن انٹرنشنل کی صدر ایمی کوئن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آبادی کے کنٹرول میں کچھ پیش رفت تو ہوئی ہے لیکن آبادی میں تیزی سے ہونے والے اضافے کو زیادہ موثر طریقے سے نہیں روکا جا سکا ہے۔ جس کی وجہ سے 2050 میں پاکستان کی آبادی کے دگنا ہونے کا اندیشہ ہے۔

ایمی کوئن کے مطابق اتنی بڑی آبادی کے لئے ضروری سہولتوں کا فقدان اور وسائل کی عدم دستیابی اس خطے میں بدامنی کے فروغ کا باعث بھی بن سکتی ہے۔

اس کانفرنس میں شریک نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پا پولیشن سٹڈیز اسلام آباد کے ڈائریکٹرمحبوب سلطان نے ریڈیو ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اس کانفرنس کا بنیادی مقصد انسانی آبادی کے امور پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کو پالیسی میکرز سے ملنے کا موقعہ فراہم کرنا اور انہیں آبادی کے حوالے سے ہونے والی تحقیقی پیش رفت سے آگاہ کرنا تھا تا کہ پالیسیاں بنانے والوں کو آبادی میں اضافے کے حوالے سے تازہ ترین رجحانات سے آگاہی حاصل ہو سکے۔

ان کے مطابق اس کانفرنس میں انسانی آبادی، صحت، دیہی آبادی کی شہروں کی طرف منتقلی اورنوجوانوں کے مسائل سمیت کئی موضوعات پراظہار خیال کیا گیا۔

انسانی آبادی کے حوالے سے غیرسرکاری تنظیموں کو مالی معاونت فراہم کرنے والے ایک ادارے کے سینئراہلکارڈاکٹرافتخاراحمد کا کہنا تھا کہ آبادی میں اضافے کا تعلق بھوک، جرائم، نفسیاتی مسائل اورسماجی الجھنوں کے ساتھ بھی ہے۔ ان کے مطابق حال ہی میں مہنگائی میں جو اضافہ ہوا ہے اس کے نتیجے میں پاکستان میں لوگوں کی مزید تعداد غربت کی لکیر کے نیچے چلی گئی ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جن کو نہ بینک قرضہ دیتے ہیں اور نہ ہی انہیں دیگر سہولیات میسر ہیں۔

ان کے مطابق عوام کی بہتری کے لئے بنائے جانے والے منصوبوں کو حتمی شکل دینے سے پہلے آبادی میں اضافے کے رجحان کو ضرور پیش نظررکھا جانا چاہئے۔

پاپولیشن ایسو سی ایشن آف پاکستان کی صدر نوشین محمود کا کہنا تھا کہ اس کانفرنس کے ذریعے تازہ ترین سائنسی تحقیق ان سرکاری حکام کو فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو عوام کی بہتری کے لئے منصوبے بنانے کے ذمہ دار ہیں۔

ان کے مطابق پاکستان میں سات کروڑ سے زیادہ لوگ تیس سال سے کم، عمر پاتے ہیں۔ ان کے مطابق نوجوانوں کی یہ بڑی تعداد ملک کے لئے قیمتی اثاثہ ہے لیکن اگراس اثاثے کو تعلیم اور تربیت کی سہولتیں فراہم نہ کی جا سکیں تو پھر یہ اثاثہ ملکی ترقی میں کچھ زیادہ مدد گار ثابت نہیں ہو سکے گا۔