1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لاہور پولیس ٹریننگ سینٹر حملہ، بھارتی ردعمل

افتخار گیلانی، نئی دہلی30 مارچ 2009

لاہور میں پولیس ٹریننگ سینٹر پر ہوئے دہشت گردانہ حملے سے بھارت میں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ بھارت نے ان حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔

https://p.dw.com/p/HMzr
بھارتی وزیر داخلہ پی چدمبرم نے لاہور حملوں کی مذمت کی ہےتصویر: AP

بھارتی وزیر داخلہ پی چدمبرم نے کہا کہ بھارت کو پاکستانی حکومت اور پاکستانی عوام سے ہمدردی ہے۔ انہوں نے تاہم کہا کہ لاہور کے حملے کا ممبئی میں گذشتہ سال نومبر میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ ممبئی پر ہوئے حملے میں پاکستانی ملوث تھے لیکن انہیں یہ نہیں پتہ کہ لاہور میں ہوئے حملے میں کون لوگ ملوث ہیں۔

بھارت کے نائب وزیر خارجہ آنند شرما نے کہا کہ پاکستان کو اس طرح کے دہشت گردانہ حملوں سے نمٹنے کے لئے اپنی سرزمین سے سرگرم دہشت گرد تنظیموں اوردہشت گردی کے بنیادی ڈھانچوں کو تباہ کرنا ہوگا۔ بھارتی فوج کے نائب سربراہ این تھمبو راج نے کہا کہ وہ لاہور کے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اگر لاہور کے واقعہ کا بھارت پر کسی طرح اثر ہوتا ہے تو بھارت اس کے لئے پوری طرح تیار ہے۔

بھارت کے نیم فوجی دستے بارڈر سیکیورٹی فورس کے سربراہ ایم ایل کماوت نے کہا کہ ان کے جوان پوری طرح الرٹ ہیں۔ حکمراں کانگریس پارٹی نے لاہور حملے میں مارے گئے لوگوں کے رشتہ داروں اور زخمیوں کے ساتھ دلی ہمدردی کااظہار کیا ہے۔ کانگریس پارٹی کے ترجمان ابھیشیک منو سنگھوی نے کہا کہ یہ ایک تکلیف دہ صورت حال ہے اور ہم اس تکلیف اور اس صورتحال کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کیوں کہ ہم ایک عرصے سے ایسے واقعات کا شکار ہوتے رہے ہیں لیکن اس مسئلے کو بہر حال پاکستان اور پاکستانی عوام کو خود ہی حل کرنا ہوگا۔

بھارت کے خارجہ سکریٹری شیوشنکر مینن نے پاکستانی وزارت داخلہ کے مشیر رحمان ملک کے اس بیان پر کہ یہ حملے بھی ممبئی پر ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی طرح ہیں، کہا کہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ لاہور پر ہوئے حملے کس نوعیت کے تھے اور ان میں کس کا ہاتھ ہے۔

انہوں نے کہا کہ’’ ان حملوں کے متعلق جلدبازی میں کوئی بات کہنا ٹھیک نہیں ہوگا۔ یہ حملے کیسے ہوئے ان کے پیچھے کیا مقاصد تھے اور حملہ آورورں کی سرپرستی کرنے والے کون لوگ ہیں۔ ابھی یہ کہنا بھی ٹھیک نہیں ہوگا کہ پاکستان میں دہشت گرد عناصر اور انتظامیہ میں موجود کچھ لوگوں کے درمیان بھی روابط تھے یا نہیں۔ تفصیلی اطلاعات کے بغیر کوئی نتیجہ اخذ کرنا درست نہیں ہوگا۔‘‘

خارجہ سکریٹری نے بتایا کہ لندن میں جی ٹونٹی کی میٹنگ کے دوران وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ امریکی صدر باراک اوباما کے ساتھ خطے میں سیکیورٹی کی موجودہ صورت حال اور دہشت گردی کے خلاف اقدامات کے بارے میں بھی بات چیت کریں گے۔ افغانستان اور پاکستان کے متعلق باراک اوباما کی نئی پالیسی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا: ’’ بھارت یہ بات بار بار کہہ چکا ہے کہ پاکستان میں موجود دہشت گرد عناصر اور انتظامیہ کے درمیان رابطے ہمارے لئے تشویش کا موجب ہیں اور جو کوئی بھی ان رابطوں کو ختم کرنے کی کوشش اور پاکستان کو دہشت گردوں کے خلاف کارروائی پر آمادہ کرے گا ہم اس کا خیرمقدم کریں گے۔‘‘

بھارت کے ساتھ جامع مذاکرات کو جلد بحال کرنے کے متعلق صدر پاکستان آصف علی زرداری کے بیان پرخارجہ سکریٹری نے واضح کیا کہ پاکستان جب تک ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے قصورواروں کے خلاف کارروائی نہیں کرتا ہے اور اپنے ہاں موجود دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچوں کو تباہ نہیں کرتا ہے اس وقت تک جامع مذاکرت بحال کرنا ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ’’ یہ بات بالکل واضح ہے کہ موجودہ حالات میں ہم چاہتے ہیں کہ ممبئی حملوں کے قصورواروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے اوردہشت گردی کے بنیادی ڈھانچوں کو تباہ کرنے کے لئے ٹھوس اور معتبرکارروائی کی جائے، جہاں سے ماضی میں ممبئی اور بھارت کے دیگر مقامات پر دہشت گردانہ حملے ہوئے ہیں۔ ہم پاکستان کی طرف سے صرف بیان بازی نہیں بلکہ ٹھوس اور قابل اعتبار اقدامات دیکھنا چاہئے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ اپنی باتوں کا عملی ثبوت دے‘‘۔