1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لبنانی علاقوں سے اسرائیل پر پھر راکٹ داغے گئے

14 جنوری 2009

غزہ پٹی میں ستائیس دسمبر کو شروع ہونے والی اسرائیلی فوجی پیشقدمی آج اُنیس ویں روز بھی بدستور جاری ہے۔ اب تک مرنے والوں کی تعداد تقریباً ایک ہزار بتائی جا رہی ہے۔ ادھر لبنانی علاقوں سے اسرائیل پر تین راکٹ داغے گئے۔

https://p.dw.com/p/GXww
غزہ سٹی میں اسرائیلی فوجی کارروائی کا ایک منظرتصویر: AP

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق لبنانی علاقوں سے ایک بار پھر اسرائیل کے شمالی علاقوں پر تین راکٹ داغے گئے تاہم ان راکٹ حملوں میں کوئی شخص ہلاک یا ذخمی نہیں ہوا۔ اسرائیلی اور لبنانی حکام ان راکٹ حملوں کا الزام لبنان میں موجود ایک غیرمعروف فلسطینی عسکریت پسند تنظیم پر عائد کر رہےے ہے۔ ابتدائی طور پر اسرائیلی کی جانب سے ان راکٹ حملوں کے جواب میں کسی کارروائی کی اطلاع نہیں ہے۔ حکام کا ماننا ہے کہ یہ راکٹ حملے غزہ پر اسرائیلی حملوں کا ردعمل ہو سکتے ہیں۔

Israelische Soldaten am nördlichen Gazastreifen
اسرائیلی فوج کی جاری کردہ اِس تصویر میں اسرائیلی فوجی شمالی غزہ پٹی کی جانب بڑھ رے ہیںتصویر: AP

دوسری جانب منگل کو بھی غزہ پٹی کی گلیوں میں اسرائیلی فوجیوں اور فلسطینی عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپیں جاری رہیں جبکہ غزہ پٹی کی مصر کے ساتھ ملنے والی جنوبی سرحد اسرائیلی بمباری کی زَد میں رہی۔ غزہ پٹی کو آنے جانے والے سرحدی راستے بند ہونے کی وجہ سے غزہ کے پریشان حال شہری اپنی جانیں بچانے کے لئے اِس علاقے کے اندر ہی ایک سے دوسری جگہ بھاگتے پھر رہے ہیں۔

ایسے میں فلسطینی صدر محمود عباس نے مغربی اُردن میں اپنے ہیڈ کوارٹر سے کل یہ کہا کہ اٹھارویں روز بھی فلسطینی قوم کے خلاف جاری اسرائیلی جارحیت ہر آنے والے دن کے ساتھ شدید تر ہوتی جا رہی ہے اور اِس کا مقصد وہاں فلسطینی آبادی کو ختم کرنا ہے۔

اِدھر لندن سے ملنے والی خبروں کے مطابق برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن غزہ میں انسانی مصائب دیکھ کر سخت پریشان ہوئے ہیں اور اُنہوں نے منگل کو اپنے اسرائیلی ہم منصب ایہود اولمرٹ کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو میں جنگ بندی کے لئے زور دیا ہے۔

Israelische Offensive in Gaza Mittwoch 7. Jan 09
تصویر: AP

اسرائیلی بیانات کے مطابق منگل کے روز ایک سو اہداف کو نشانہ بنایا گیا، جن میں سے اکٹھے پچپن حملے مصر کے ساتھ ملحقہ سرحد پر واقع سرنگوں پر کئے گئے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کے عمومی ڈھانچے اور اُس کے عسکری بازو کے خلاف کارروائی میں خاصی کامیابی حاصل ہوئی ہے لیکن ابھی کافی کچھ کرنا باقی ہے۔

اِسی دوران ہلیری کلنٹن نے، جو ایک ہفتے بعد امریکی وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھالنے والی ہیں، سینٹ میں بطور وزیر خارجہ اپنی توثیق کے سلسلے میں ایک اجلاس میں کہا کہ باراک اوبامہ انتظامیہ مشرقِ وُسطےٰ میں امن کے لئے تمام ممکنہ کوششیں کرے گی۔

ہلیری کلنٹن نے کہا کہ صدر اوبامہ اور وہ اسرائیل کی اِس خواہش کے ساتھ گہری ہمدردی رکھتی ہیں کہ وہ موجودہ حالات میں اپنا دفاع کرے اور اُسے حماس کی جانب سے راکٹ حملوں کا مزید کوئی خطرہ نہ رہے۔ لیکن یہ کہ اُنہیں یہ بھی احساس ہے کہ یہ تنازعہ خطے میں بسنے والے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لئے بے پناہ آلام و مصائب کا باعث بن رہا ہے۔ چنانچہ اُن کی انتظامیہ ایک ایسے تصفیے کے لئے پُر عزم ہے، جس کے نتیجے میں اسرائیل کو حقیقی تحفظ حاصل ہو، ہمسایہ ممالک کے ساتھ اُس کے معمول کے اور مثبت تعلقات ہوں اور فلسطینیوں کو بھی اپنی ایک الگ ریاست کے اندر آزادی، اقتصادی ترقی اور تحفظ مل سکے۔

Palästinenser Gaza Neuer Tunnel vom Gaza-Streifen nach Ägypten
ایک فلسطینی مزدور غزہ پٹی اور مصر کے درمیان ایک سرنگ کھودتے ہوئے۔ اسرائیل کا الزام ہے کہ اِن سرنگوں کے ذریعے اسلحہ اسمگل ہو کر غزہ میں عسکریت پسندوں تک پہنچتا ہے۔تصویر: picture-alliance/ dpa

ساتھ ہی لیکن ہلیری کلنٹن نے یہ بھی کہا کہ حماس کے ساتھ بات چیت اُس وقت تک نہیں ہو گی جب تک یہ تنظیم اسرائیل کے وجود کو اور اُس کے حقِ بقا کو تسلیم نہیں کرتی۔

اُدھر حماس کا ایک وفد آج کل قاہرہ میں ہے، جہاں جنگ ختم کرنے سے متعلق صدر حوسنی مبارک کے وضع کردہ اُس منصوبے پر بات چیت ہو رہی ہے، جسے مغربی دُنیا کی بھی پشت پناہی حاصل ہے۔ مصر کی طرف سے حماس پر اِس منصوبے میں شامل شرائط کو تسلیم کرنے کے لئے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔

دریں اثناء بین الاقوامی امدادی تنظیموں نے غزہ پٹی کی ایک اعشاریہ پانچ ملین نفوس پر مشتمل فلسطینی آبادی کے پیشِ نظر وہاں ایک بڑھتے ہوئے انسانی المیے سے خبردار کیا ہے۔ فلسطینی آبادی کے لئے اَشیائے ضرورت کی فراہمی کو یقینی بنانا اور تنازعےکے حل کے لئے سفارتی کوششیں کرنا اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مُون کے اُس ایک ہفتے کے دَورہء مشرقِ وُسطےٰ کا بھی مرکز و محور ہے، جو بدھ سے مصری دارالحکومت قاہرہ میں شروع ہو رہا ہے۔

اسرائیلی فوجی کارروائیوں کا ایک بڑا مقصد مصر کے ساتھ ملحقہ سرحد کے نیچے بنائی گئی اُن سرنگوں کی تباہی یا بندِش بھی ہے، جو مبینہ طور پر غزہ کے اندر ہتھیار اسمگل کر کے لانے کے لئے استعمال کی جاتی ہیں۔ مصر کی درخواست پر اِس سرحد کی نگرانی کے لئے جرمنی آنے والے دنوں میں اپنے پولیس اور کسٹم ماہرین روانہ کر رہا ہے۔ جرمن وزارتِ داخلہ میں اسٹیٹ سیکریٹری آؤگسٹ ہانِنگ نے مصر کو یقین دلایا ہے کہ جرمنی غزہ پٹی کے ساتھ ملنے والی سرحد کو تکنیکی طور پر محفوظ بنانے میں اُس کی مدد کرے گا۔ قاہرہ حکومت کی جانب سے مدد کی درخواست مصر میں ہانِنگ کے مذاکرات کے دوران کی گئی تھی۔ ہانِنگ نے جلد از جلد مُشیر فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ سرحد کی بہتر نگرانی کا مقصد انتہا پسند حماس کو ہتھیاروں کی اسمگلنگ روکنا ہے۔

جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر یہ عندیہ بھی دے چکے ہیں کہ اِس سرحد پر کسی بین الاقوامی امن مشن میں جرمنی بھی شرکت کرنے کے لئے تیار ہے۔