1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لبنان سے اسرائیلی دستوں کا انخلاء مکمل

1 اکتوبر 2006

اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کے جنگ بندی سمجھوتے کی ایک اہم شرط کو پورا کر دیا ہے۔ گذشتہ شب دو بج کر تیس منٹ پر آخری اسرائیلی ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں باقی ماندہ اسرائیلی فوجیوں کو لے کر اسرائیل روانہ ہو گئیں۔ ان اسرائیلی ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں پر سوار فوجی خوشی کا اظہار کر رہے تھے کہ وہ اتوار کے روز غروب ِ آفتاب کے بعد سے شروع ہونےوالے یہودیوں کے سب سے بڑے تہوار یومِ کِپور پر اپنے اپنے گھروں میں ہوں گے۔

https://p.dw.com/p/DYIt
تصویر: AP

جس جگہ سے یہ آخری اسرائیلی فوجی اپنے وطن کو روانہ ہوئے، وہ تقریباً وہی جگہ ہے، جہاں اڈہائی مہینے پہلے حزب اللہ نے ایک حملے میں دو اسرائیلی فوجیوں کو اغوا کر لیا تھا۔ یہ فوجی بدستور لبنانی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے قبضے میں ہیں جبکہ اِنہی فوجیوں کا اغوا جنوبی لبنان میں اسرائیلی پیش قدمی کا باعث بنا تھا۔

ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ یہ اسرائیلی فوجی کسی فتح مندی کے احساس کے ساتھ وطن واپس اس لئے نہیں لوٹ رہے کیونکہ حزب اللہ کے جن جنگجوؤں کا قلع قُمع کرنے کے لئے انہوں نے لبنانی سرزمین پر قدم رکھا تھا، وہ اب بھی وہیں موجود ہیں۔

اِس طرح اسرائیلی سربراہِ حکومت ایہود اولمرٹ نے بھی جنگ سے پہلے اور جنگ کے دوران جن مقاصد کا تعین کیا تھا، وہ بھی حاصل نہیں ہو سکے۔ اولمرٹ نے کہا تھا کہ صرف اِن دو مغوی فوجیوں کی رہائی ہی جنگ کو ختم کر سکے گی اور وَسط جولائی میں اولمرٹ نے کہا تھا کہ شیعہ ملیشیا حزب اللہ کو مکمل طور پر غیر مسلح کیا جانا پڑے گا۔

آج لبنان سے اسرائیلی دستوں کا انخلاء مکمل ہونے پر چند ایک اسرائیلی اخبارات نے اِسی جانب اشارہ کیا ہے کہ اولمرٹ اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔

تل ابیب سے Clemens Verenkotte کے مطابق گذشتہ ہفتوں کے دوران اولمرٹ اور وزیرِ دفاع آمیر پیریتس دونوں کی مقبولیت میں زبردست کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ رائے عامہ کے ایک جائزے میں محض سات فیصد اسرائیلی شہریوں نے وزیر اعظم اولمرٹ کی کارکردگی پر اطمینان اظہار کیا، جبکہ Perez کی کارکردگی پر اطمینان ظاہر کرنے والوں کی تعداد اس سے بھی کم تھی۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ دونوں ہی رہنما اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ یہ ایسے ضروری قدم اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، جن کی کہ اِس وقت ضرورت ہے۔

مثلاً شام کے ساتھ سیاسی مکالمت کا آغاز یا پھر فلسطینی صدر محمود عباس کی جانب ایسی نمایاں مراعات کہ جن کے نتیجے میں انتہا پسند حماس کے مقابلے پر اُن کی پوزیشن مستحکم ہو سکے۔ اِس سلسلے میں ایک قدم مثلاً ایسے چند سو فلسطینی قیدیوں کی رہائی ہو سکتا ہے، جو شدید بیمار ہیں یا جو گذشتہ بیس برسوں سے اسرائیلی جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں۔

تاہم اِسی ہفتے پُر زور انداز میں اسرائیلی سربراہِ حکومت اولمرٹ نے ایک بار پھر یہ کہا کہ جب تک مغوی اسرائیلی فوجی گِلاد شالیت رہا نہیں ہوتا، وہ فلسطینی قیدیوں کی رہائی پر بات کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس پانچ اکتوبر کو ایک ملاقات میں ایہود اولمرٹ پر زیادہ عملی اقدامات کے لئے زور دیں گی۔