1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لندن سے سندھ تک: السا قاضی کی زندگی پر اک نظر

11 ستمبر 2009

جرمنی کی متعدد معروف خواتین نے پاکستانی معاشرے اور وہاں کی ثقافت سے متاثر ہو کر اپنی زندگی کا ایک اہم حصہ اس جنوبی ایشیائی ملک میں ہی گزارا۔ ایسی ہی ایک شخصیت معزز جرمن خاتون Elsa Kazi کی ہے۔

https://p.dw.com/p/JdHt
تصویر: AP

جرمنی کی متعدد معروف خواتین نے پاکستانی معاشرے اور وہاں کی ثقافت سے متاثر ہو کر اپنی زندگی کا ایک اہم حصہ اس جنوبی ایشیائی ملک میں ہی گزارا۔ ان جرمن عورتوں کی انسپریشن یا تشویق کا باعث کبھی شاعرمشرق اقبال لاہوری بنے تو کہیں وادئی مہران کے صوفیا کرام کی تعلیمات کی کشش نے جرمن خواتین کو سندھ کی مٹی کی طرف کھینچا۔ان میں سے کچھ نے اپنی زندگی کے آخری ایام وہیں گزارے یہاں تک کہ انکی آخری آرام گاہیں بھی پاکستان ہی میں پائی جاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک معروف جرمن خاتون Elsa Kazi کی ہے۔

Universität Oxford
لندن میں آکسفورڈ یونیورسٹی کا ایک دلکش منظرتصویر: AP

Elsa Getrude Loesch جو بعد میں السا قاضی بن گئیں کی پیدائش جرمنی کے ایک چھوٹے سے علاقے ’روڈل اشٹڈ‘ میں تین اکتوبر اٹھارہ سو چوراسی میں ہوئی۔ انکے والد اس وقت کے ایک مشہور موسیقار اور ایک ثروت مند جرمن باشندے تھے۔ انکی لندن میں بہت سی جائیداد تھی۔

دوسری جنگ عظیم میں انکی یہ جائیداد تباہ ہو گئی تھی۔ جنگ کے خاتمے کے بعد انہیں اس نقصان کی تلافی میں کافی رقوم دی گئیں۔ یہ خاندان لندن جا کر آباد ہوگیا۔ السا لندن میں ہی زیر تعلیم رہیں اور وہیں سے انہوں نے اپنی مادری زبان یعنی جرمن میں شاٹ سٹوریز، ون ایکٹ پلیز، ناولز لکھنے اور شاعری کرنے کے ساتھ ساتھ مصوری کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ السا پیدائشی طور پر جرمن تھیں مگر ان کے اندر ایک مشرقی روح پائی جاتی تھی۔

لندن میں ان کی ملاقات سندھ سے تعلق رکھنے والی ایک معروف پاکستانی شخصیت علامہ آئی آئی قاضی سے ہوئی۔ وہ بھی بالکل اتفاقاً لندن کے ریلوے اسٹیشن پر۔ ان دونوں کی یہ ملاقات ان کے جنم بھر کے بندھن کا بہانہ بنی۔ السا اور قاضی نے انیس سو دس میں جرمنی میں شادی کی۔ انیس سو گیارہ سے لے کر انیس سو انیس تک یہ میاں بیوی لندن میں ہی رہے، تاہم یہ آئے دن سندھ کے دورے پر جاتے رہتے تھے۔

لندن میں قیام کے دوران تیس سال تک علامہ قاضی اور ان کی شریک حیات السا قاضی سندھ میں اسلام کی آمد اور اس خطے میں اسلامی ثقافت کے ارتقاء کے بارے میں تحقیق کرتے رہے۔ اس دوران انہیں اندازہ ہوا کہ برصغیر تک اسلام کی آمد صوفیائے کرام کی تعلیمات کے ذریعے ممکن ہوئی۔ انیس سو اکاون تک اس جوڑے نے برطانیہ میں اسلامی تصوف کے بارے میں درس و تدریس کا کام جاری رکھا۔

اسی اثناء میں علامہ آئی آئی قاضی کو سندھ یونیورسٹی کی طرف سے وائس چمنسلر شپ کی پیشکش کی گئی، جسے قبول کرتے ہوئے وہ اپنی رفیق حیات کے ساتھ سندھ چلے گئے۔ آٹھ سال اس عہدے پر فائض رہنے کے بعد علامہ قاضی ریٹائر ہوئے اور اس کے بعد چند سال دونوں میاں بیوی نے سندھ میں ہی صوفیائے کرام سے فیض حاصل کیا، وہیں آباد رہے۔ السا قاضی سندھ کے مشہور صوفی شاعر شاہ عبدل لطیف بھٹائی اور سچل سرمست سے بہت زیادہ متاثر تھیں۔ انہیں گرچہ سندہی زبان پر عبور نہیں تھا تاہم وہ اپنے شوہر کی مدد سے ان اور دیگر صوفیاء کا کلام پڑھتیں، اسے سمجھنے کی کوشش کرتیں اور پھر اسکا انگریزی زبان میں ترجمہ کرتیں۔ شاہ عبدل لطیف بھٹائی کے لاتعداد اشعار کا السا قاضی نے انگریزی زبان میں ترجمہ کیا۔

چند سال علیل رہنے کے بعد تراسی سال کی عمر میں السا قاضی انیس سو سرسٹھ میں اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ انکی کوئی اولاد نہیں تھی تاہم انہیں ’مدر السا‘ کے نام سے ہمیشہ یاد کیا جاتا ہے۔ سندھ کی مہران یونیورسٹی آف انگجینیرنگ اینڈ تکنالوجی کے گرلز ہوسٹل سمیت سندھ کی کئی دیگر عمارات کا نام السا قاضی کے کا نام پز رکھا گیا ہے۔ السا قاضی اس وقت اپنے شوہر علامہ آئی آئی قاضی کل لحد کے برابر میں سندھ یونیورسٹی جامشورو کے نئے کیمپس میں مدفن ہیں۔ ان دونوں کی قبروں پر صوفیا کے کلام کندہ کئے گئے ہیں۔

تحریر: کشور مصطفٰی

ادارت: گوہر گیلانی