1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ليبيا : مہاجرين کشمکش ميں مبتلا، گھر جانا بھی ہے نہيں بھی

عاصم سليم27 جولائی 2016

ليبيا کے ساحلوں پر اکتاليس مہاجرين کی لاشيں برآمد ہونے کے بعد يہ ظاہر ہے کہ يہ بحران ابھی ختم نہيں ہوا ہے۔ ڈی ڈبليو نے اس سلسلے ميں ليبيا ميں تعينات اقوام متحدہ کے ايک سينیئر سفارت کار سے بات چيت کی۔

https://p.dw.com/p/1JWbj
تصویر: picture-alliance/dpa

جرمن سفارت کار مکارٹن کوبلر نومبر سن 2015 سے ليبيا ميں اقوام متحدہ کے سپورٹ پروگرام کے سربراہ مقرر ہيں۔ اس سے قبل وہ افريقی ملک کانگو ميں ملکی استحکام سے متعلق ايک مشن کی سربراہی کرنے کے علاوہ عراق اور افغانستان ميں بھی خدمات انجام دے چکے ہيں۔

ڈی ڈبليو : اس سال مئی ميں آپ نے پيشن گوئی کی تھی کہ سن 2016 کے دوران تقريباً ايک لاکھ مہاجرين ليبيا سے يورپ کا سفر کر سکتے ہيں۔ کيا ان اعداد و شمار ميں رد و بدل کا کوئی امکان ہے؟

مارٹن کوبلر : سال رواں ميں اب تک قريب 77,000 پناہ گزين ليبيا سے رخصت ہو چکے ہيں اور ابھی يہ سلسلہ جاری ہے۔ ہماری فہرست ميں مختلف افريقی ملکوں سے تعلق رکھنے والے قريب 235,000 مہاجرين کے نام درج ہيں جو اس وقت ليبيا ميں ہيں۔ ميں يہ سمجھتا ہوں کہ ہجرت کا يہ سلسلہ ابھی جاری رہے گا اور اس ميں رکاوٹ کے کوئی آثار بھی دکھائی نہيں ديتے۔

ڈی ڈبليو : ليبيا ميں يہ مہاجرين کن ممالک سے آ رہے ہيں؟ کيا حاليہ دنوں ميں اس سلسلے ميں کوئی تبديلی ديکھنے ميں آئی ہے؟

مارٹن کوبلر : ميں پچھلے دنوں دارالحکومت طرابلس کے ايک مہاجر کيمپ ميں تھا جہاں مہاجرين کو ان کے آبائی ممالک بدر کرنے سے پہلے رکھا جاتا ہے۔ ميں يہ بات وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کے تمام مہاجرين اپنے اپنے ممالک واپس جانا چاہتے ہيں۔ ان مہاجرين کا تعلق بر اعظم افريقہ سے ہے، کوئی سينيگال سے ہے، تو کوئی گيمبيا سے۔ حتٰی کہ لوگ صوماليہ اور اریٹيريا جيسے مقابلتاً دور واقع ملکوں سے بھی ليبيا کا سفر کر رہے ہيں۔ يہ لوگ گہرے صدمے کا شکار ہيں اور اپنے ممالک واپس جانا چاہتے ہيں۔ ہاں البتہ کچھ ايسے بھی ہيں جو بہتر مستقبل کے ليے يورپ جانے کے خواہشمند ہيں۔

ڈی ڈبليو : آپريشن صوفيہ کے بارے ميں آپ کا کيا خيال ہے، جس ميں يورپی يونين کے بحری جہاز بحيرہ روم ميں انسانوں کی اسمگلنگ ميں ملوث کشتيوں کو روکا کرتے ہيں؟ کيا موجودہ حالات ميں يہ درست حکمت عملی ہے؟

مارٹن کوبلر : يہ بہت ضروری ہے کہ انسانوں کی اسمگلنگ اور ٹريفکنگ کو روکا جائے اور يہ ممکن ہے ملک ميں حکومتی رٹ کی بحالی کے ذريعے۔ يہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ اور يورپی حکومتيں اس سلسلے ميں کافی سرگرم ہيں۔ جن مہاجرين کو بارہ ميل کے حدود کے باہر سے روکا جائے انہيں واپس نہيں بھيجا جا سکتا، انہيں پھر کشتيوں پر سوار کر کے لمپاڈوسا يا يورپ ميں ديگر کسی مقام پر لے جايا جانا پڑتا ہے۔ آپريشن صوفيہ ليبيا کے ساحل سے بارہ ميل کی حدود سے باہر فعال ہے اور يوں مہاجرين کو پکڑ کر واپس کرنے کا اہل نہيں۔ دريں اثناء کوسٹ گارڈز کی تربيت بھی آپريشن صوفيہ کا حصہ ہے اور ان دنوں اس پر کام جاری ہے تاکہ ليبيا کے کوسٹ گارڈز لوگوں کو ليبيا ہی کی حدود ميں رکھ سکيں۔

دوسری جانب کيمپوں کے حالات بہتر بنانے سے متعلق پروگراموں کی بھی اشد ضرورت ہے۔ جن کيمپوں کا دورہ ميں نے کيا، ان کی حالت کافی خراب تھی۔

جرمن سفارت کار مکارٹن کوبلر نومبر سن 2015 سے ليبيا ميں اقوام متحدہ کے سپورٹ پروگرام کے سربراہ مقرر ہيں
جرمن سفارت کار مکارٹن کوبلر نومبر سن 2015 سے ليبيا ميں اقوام متحدہ کے سپورٹ پروگرام کے سربراہ مقرر ہيںتصویر: picture-alliance/dpa/M. Messara

ڈی ڈبليو : ليبيا سن 2011 ميں معمر قدافی کی ہلاکت کے بعد سے انتشار کا شکار ہے۔ پچھلے دو ماہ سے وسطی ليبيا ميں سرت کے مقام پر حکومت نواز فوجيوں اور دہشت گرد تنظيم اسلامک اسٹيٹ کے جہاديوں کے مابين سخت لڑائی جاری ہے۔ اقوام متحدہ کے سفارت کار کے طور پر آپ کيا سمجھتے ہيں کہ ليبيا ميں قيام امن کس طرح ممکن ہے؟

مارٹن کوبلر : بياليس برس تک قدافی کی آمريت اور پھر ملک انتشار کا شکار۔ ’ليبيئن پوليٹيکل اگريمنٹ‘ کے ذريعے ہم ملک کو جوڑنے کی کوشش کر رہے ہيں۔ يہ راتوں رات ہونے والا کام نہيں تاہم مثبت بات يہ ہے کہ اب ايک صدارتی کونسل اور ايک باقاعدہ حکومت موجود ہے، جو فعال ہوتی جا رہی ہے۔ مرکزی بينک حکومت کے کنٹرول ميں ہے اور تيل کی پيداوار سے منسلک کمپنياں بھی متحد ہيں۔ ہر ايک کوشش ميں ہے کہ خام تيل کی فروخت بڑھائی جائے تاکہ ملکی مرکزی بينک کے وسائل بڑھ سکيں۔ اس کے علاوہ وزراء بھی طرابلس ميں اپنا اپنا کام سنبھال رہے ہيں۔ ليکن ميں يہ تسليم کرتا ہوں کہ ملک کو درپيش گھمبير مسائل کے حل کے ليے يہ تمام چيزيں بھی کافی نہيں۔ اب بھی سياسی و سکيورٹی مسائل موجود ہيں ليکن فوج متحد نہيں۔ حکومتی رٹ کے قيام يا اس کی بحالی کے ليے ايک متحد فوج ناگزير ہے۔ صرف اسی صورت مطلوبہ مقصد حاصل کيا جا سکتا ہے۔

انٹرويو : مارک کالڈ ويل، ترجمہ : عاصم سليم

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید