1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لے پین یا ماکروں؟ فرانس کے نئے صدر کا فیصلہ آج ہو رہا ہے

7 مئی 2017

فرانس میں صدارتی انتخابات کے دوسرے اور فیصلہ کن مرحلے میں ووٹنگ کا آغاز ہو گیا ہے۔ یہ رائے شماری بڑے شہروں میں رات آٹھ بجے جبکہ دیگر علاقوں میں شام سات بجے تک جاری رہے گی۔

https://p.dw.com/p/2cXlM
Frankreich Wahlplakate Macron und Le Pen 2. Runde
تصویر: picture-alliance/Maxppp/L. Vadam

فرانس کے تقریباً 46 ملین اہل ووٹرز آج فیصلہ کر رہے ہیں کہ ملک کی اگلی صدر عوامیت پسند خاتون سیاست دان مارین لے پین ہوں گی یا پھر یہ ذمہ داری لبرل اور یورپی یونین کے حامی آزاد امیدوار ایمانوئل ماکروں کو سونپی جائے۔ قبل از انتخابات کرائے جانے والے آخری جائزے کے مطابق ماکروں کو ساٹھ فیصد  تک ووٹ مل سکتے ہیں جبکہ لے پین کو چالیس فیصد عوامی تائید حاصل ہو گی۔ تاہم بہت سے فرانسیسی شہریوں نے انتخابات میں حصہ نہ لینے کا کہا ہے اور ماہرین کے مطابق اس کا فائدہ لے پین کو ہو سکتا ہے۔

انتخابی مہم کے ختم ہونے سے کچھ دیر قبل اس خبر سے مختلف حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی کہ ماکروں کے ٹیم کو ایک بڑے سائبر حملے کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ملکی صدر فرانسوا اولانڈ نے کہا کہ اگر واقعی صدارتی امیدوار کے دستاویزات چرائے گئے ہیں یا ان میں گڑ بڑ کی گئی ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

Frankreich Präsidentschaftswahl in Vaulx-en-Velin
تصویر: Reuters/E. Foudrot

یہ انتخابات فرانس کے ساتھ ساتھ یورپی یونین کے لیے بھی انتہائی اہم سمت کا تعین کریں گے۔ فتح کی صورت میں لے پین فرانس کو یورپی یونین سے الگ کرنا چاہتی ہیں ساتھ ہی وہ یورو کرنسی کو بھی تنقیدی نگاہ سے دیکھتی ہیں اور ملک کی سابق کرنسی’فرانک‘ کو دوبارہ سے رائج کرنے کے لیے ریفرنڈم کرانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

 تجزیہ کاروں کے مطابق اگر فرانس یورپی یونین سے نکل جاتا ہے تو اس اتحاد کو برقرار رکھنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ لے پین کھل کر مہاجرین کی مخالفت بھی کرتی ہیں۔ دوسری جانب ماکروں ہیں، جو یورپی یونین کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے جرمنی کے ساتھ باہمی تعلقات کو مزید فروغ دینا چاہتے ہیں۔

فرانس میں گزشتہ دنوں ہونے والے کئی دہشت گردانہ حملوں کے بعد ملک میں ہنگامی حالت نافذ ہے۔ 2015ء کے آغاز سے اب تک اس ملک میں 230 سے زائد شہری ان کارروائیوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ موجودہ صدر فرانسوا اولانڈ نے اپنی مقبولیت میں کمی کی وجہ سے دوبارہ انتخابات میں حصہ  نہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔