1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ماحولیاتی تبدیلیوں کا مسئلہ، بھارت پاکستانی تعاون کا خواہاں

1 جولائی 2009

بھارت ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے پر امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں کے احکامات کو ماننے سے صاف انکار کرتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر ایک مشترکہ مؤقف پیش کرنے کے لئے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لئے تیار ہے۔

https://p.dw.com/p/If5o
بھارت بڑی مقدار میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے ذمہ دار ملکوں میں سے ایک ہےتصویر: AP

ماحولیاتی تبدیلی یا کلائمٹ چینج کا مسئلہ دہشت گردی اور مالیاتی بحران سمیت ان تین عالمی مسائل میں سے ایک ہے جو ہربین الاقوامی کانفرنس کے ایجنڈے میں لازمی طورپر موجود رہتے ہیں۔ اس مسئلے پر ترقی یافتہ اورترقی پزیر ملکوں کے درمیان شدیداختلافات پائے جاتے ہیں۔ ترقی پزیر ملکوں کا کہنا ہے کہ چونکہ اس مسئلے کی جڑیں صنعتی لحاظ سے ترقی یافتہ ملکوں میں موجود ہیں اس لئے اس سے نمٹنے کی ذمہ داری بھی انہیں کی بنتی ہے جب کہ ترقی یافتہ ممالک چاہتے ہیں کہ اس مصیبت کا بوجھ ترقی پزیر ممالک بھی برداشت کریں۔ امریکہ نے ایک قانون بنانے کی تجویز پیش کی ہے جس کی رو سے ایسے ممالک جو ماحولیاتی تبدیلی کے لئے ذمہ دار گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو مقررہ مدت کے اندر کم کرنے میں ناکام رہیں گے ان پر مالی جرمانہ عائد کیا جائے گا لیکن بھارت نے اس تجویز کی شدید مخالفت کی ہے۔

ماحولیات اور جنگلات کے بھارتی وزیر جے رام رمیش نے کہاکہ بھارت گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لئے کسی مقرر ہ وقت کو کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔ اس معاملے پر کوئی بات نہیں ہوسکتی اور بھارت ایسا کوئی معاہدہ نہیں کرے گا جو اسے گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کا پابند بناتا ہو۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کا کوئی معاہدہ اپنی اقتصادی ترقی، زرعی ترقی، انرجی اور ٹرانسپورٹیشن پرکلہاڑی مارنے کے مترادف ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے کی آڑ لے کر ترقی پریز ملکوں کے خلاف تجارتی پابندیاں عائد کرنے کی ترقی یافتہ ملکوں کی ہر کوشش کی مخالفت کرے گا۔ انہوں نے کہاکہ حالانکہ پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ بھارت کے سیاسی اختلافات ہیں لیکن ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے پر ایک مشترکہ مؤقف اپنانے کے لئے اسے پاکستان کے علاوہ چین، نیپال اور بھوٹان سمیت دیگرجنوب ایشیائی ملکوں کے ساتھ مل کر کام کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

یہاں اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھی اس معاملے میں حکومت کے مؤقف کی حمایت کی ہے۔ بی جے پی کے ترجمان پرکاش جاوڈیکر نے کہا کہ بھارت ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا ہونےوالے مسائل کا شکار ہے حالانکہ اس کی ذمہ داری ترقی یافتہ ملکوں پر ہے۔اس لئے اس معاملے میں انہیں زبانی جمع خرچ کرنے کے بجائے عملی ثبوت دینا چاہئے اور اس مسئلے پر قابو پانے کے لئے ترقی پریز ملکوں کی کافی مالی مدد کرنی چاہئے۔ اس کے لئے ترقی پزیر ملکوں کو ہر سال 140 بلین ڈالرکی اضافی امداد دینی چاہئے۔

بھارتی وزیر جے رام رمیش نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک کتنی بڑی مقدار میں گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کررہے ہیں اس کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جہاں امریکہ میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کا اخراج فی کس 20 ٹن اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں 10 ٹن سے بھی زیادہ ہے وہیں تیز رفتار اقتصادی ترقی اور بہت بڑی آبادی کے باوجود بھارت میں یہ فی کس 1.1 ٹن ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغربی ممالک مسلسل یہ پروپیگنڈہ کررہے ہیں کہ بھارت جیسے ترقی پزیر ممالک مستقبل میں ماحولیاتی تبدیلی کو مزید بگاڑ دیں لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔انہوں نے کہا کہ امریکہ اور چین مجموعی طور پر6 فیصد گرین ہاوس گیس خارج کرتے ہیں جب کہ بھارت میں یہ مقدار صرف چار فیصد ہے۔ انہوں نے ماحولیاتی تبدیلی کو بچانے کے لئے بڑے پیمانے پر شجرکاری کا مشورہ دیا۔

وزیرماحولیات نے بتایا کہ بھارتی سائنس دانوں کی ایک ٹیم ہمالیائی گلیشئرکے تیزی سے پگھلنے کی وجوہات کا مطالعہ کررہی ہے۔ اور اسے بچانے کی اپنی مہم میں پاکستان، چین، نیپال اور بھوٹان کو شامل کرنے کے حق میں ہے۔ خیال رہے کہ انہیں گلیشیئروں سے پاکستان کی کئی بڑے دریاؤں کو پانی ملتا ہے۔ جب کہ کچھ عرصے سے پانی کا مسئلہ بھارت اور پاکستان کے درمیان دیگر سیاسی مسائل سے بھی زیادہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ جے رام رمیش نے کہا کہ بھارتی سائنس داں اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ ہمالیائی گلیشیر آیا قدرتی وجوہات سے پگھل رہے ہیں یا یہ ماحولیاتی تبدیلی یا انسانی سرگرمیوں کا نتیجہ ہے۔

بھارت نے اتراکھنڈ ریاست میں دریائے گنگا کے منبع گئومکھ کی سیاحت کے لئے جانے والے زائرین اور ہندو عقیدت مندوں کی تعداد کو محدود کرنے کا ایک حکم نامہ گزشتہ مارچ میں جاری کیا۔ جس کے تحت روزانہ صرف 150 افراد کوہی گئومکھ تک جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ اس کے برعکس وادی کشمیر میں سند ھ گلیشئروں پر روزانہ 20 ہزار سے زیادہ عقیدت مندوں اور سیاحوں کا اژدہام رہتا ہے۔ ماہرین کے مطابق سیاچین خطہ پر فوجی نقل و حرکت سے بھی ان گلیشئروں کے وجود کوخطرہ ہے۔

رپورٹ : افتخار گیلانی، نئی دہلی

ادارت : عاطف توقیر