1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ماضی کی مقبول اداکارہ شمیم آرا بھی چل بسیں

تنویر شہزاد، لاہور5 اگست 2016

پاکستانی فلمی صنعت کی ماضی کی ممتاز اداکارہ ، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر شمیم آرا جمعہ پانچ اگست کو لندن میں انتقال کر گئیں۔ پاکستانی فلمی صنعت سے وابسطہ افراد کا کہنا ہے کہ وہ بہترین فنکارہ ہونے کے ساتھ عمدہ انسان بھی تھیں۔

https://p.dw.com/p/1JcKo
Shamim Ara
تصویر: privat

پاکستان کی فلم انڈسٹری میں عشروں تک مقبولیت کے جھنڈے گاڑنے والی ورسٹائل اداکارہ کا جمعے کے روز لندن میں ان کا انتقال ہوگیا۔ 2010ء میں انہیں برین ہیمرج ہوا، جس کے بعد انہیں لاہور کے ایک ہسپتال میں داخل کروایا گیا۔ بعد ازاں انہیں علاج کی غرض سے لندن منتقل کر دیا گیا جہاں ان کا بیٹا سلمان اقبال مقیم ہے۔ لندن میں شمیم آرا کے دماغ کا آپریشن بھی کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکیں، پچھلے کچھ عرصے سے وہ کومے میں تھیں۔

78 سالہ شمیم آرا تقسیم ہند سے پہلے بھارت کے علاقے علی گڑھ میں پیدا ہوئیں، ان کا اصلی نام پتُلی بائی تھا۔ انہوں نے 1956ء میں اپنے فلمی کیریئر کا آغاز ہدایت کار نجم نقوی کی فلم ’کنواری بیوہ‘ سے کیا۔ ان کے زیادہ شہرت 1960ء میں انہیں اس وقت ملی جب ان کی فلم سہیلی ہٹ ہوئی۔ ان کا شمار ساٹھ اور ستر کے عشرے کی مقبول ترین اداکاراؤں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے 80 سے زائد فلموں میں کام کیا۔ 1986 میں انہوں نے فلموں میں ہدایت کاری کا آغاز کیا۔ ان کی چند معروف فلموں میں انارکلی، نائلہ، ہمراز، چنگاری،فرنگی،دوراہا، سالگرہ، صاعقہ، آگ کا دریا، مِس استنبول، منڈا بگڑا جائے، اور پَلے بوائے شامل ہیں۔

شمیم آرا کو چار مرتبہ نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔ شمیم آرا کے انتقال کی خبر ملنے کے بعد لاہور کے فلمی حلقوں میں اس وقت سوگ کا سماں ہے۔ ان کی موت پر صدر پاکستان کے علاوہ بہت سی اہم حکومتی اور غیر حکومتی شخصیات نے دکھ کا اظہار کیا ہے، شمیم آرا کے چاہنے والے سوشل میڈیا پر بھی ان سے اپنی عقیدت کا اظہار کر رہے ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کی معروف اداکارہ اور شمیم آرا کی قریبی سہیلی بہار بیگم نے بتایا کہ شمیم آرا ایک بہترین فنکارہ ہونے کے علاوہ ایک اچھی شخصیت کی حامل انسان تھیں۔ان کے بقول شمیم آرا نے بڑے خلوص سے بہت عمدہ کام کیا اور ساتھی فنکاروں سے ان کا رویہ بہت اچھا ہوتا تھا۔ شمیم آرا کے بیٹے کے ساتھ ہونے والی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ شمیم آرا کی لندن میں ہی تدفین کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ شمیم آرا کے پسماندگان میں صرف ان کا ایک بیٹا سلمان اقبال ہے جو کہ لندن میں مقیم ہے۔

Shamim Ara
شمیم آرا کا شمار ساٹھ اور ستر کے عشرے کی مقبول ترین اداکاراؤں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے 80 سے زائد فلموں میں کام کیا۔تصویر: privat

ممتاز پاکستانی گلوکارہ فریدہ خانم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’شمیم آرا اپنے وقت کی بہترین اداکارہ تھیں، جن کی پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ان کا اخلاق بہت اچھا تھا۔ وہ ہر کسی سے پیار سے ملتی تھیں۔‘‘

پنجاب اسمبلی کی رکن، پنجاب آرٹس کونسل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی رکن اور پاکستان کی معروف اداکارہ کنول نعمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا شمیم آرا کی موت سے پاکستان کی فلم انڈسٹری ایک لیجنڈ سے محروم ہو گئی ہے، ’’ان کی موت سے ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا ہے جو مدتوں پورا نہیں ہو سکے گا۔‘‘

کنول نعمان کا مزید کہنا تھا، ’’شمیم آرا پاکستانی فنکاروں کے لیئے رول ماڈل تھیں، انہوں نے پاکستانی معاشرے میں پائی جانے والی مشکلات کے باوجود ایک فلمی اداکارہ اور فلم ڈائریکٹر کے طور پر اپنے آپ کو منوایا ۔ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ وہ ایک اچھے کردار کی حامل خاتون تھیں، نہ کبھی ان کے حوالے سے کسی نے بات سنی اور نہ ہی ان کا کوئی سکینڈل سامنے آیا۔‘‘

پاکستان کے ایک معروف فلم ڈائریکٹر الطاف حسین شمیم آرا کی موت کو پاکستان کی فلم انڈسٹری کے لیے ایک بڑا نقصان قرار دیتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ان کا کام منفرد اور مہذب تھا۔ وہ اداکارہ کے طور پر بھی کامیاب رہیں اور فلم ڈائریکٹر کے طور پر بھی ان کی کارکردگی اچھی رہی۔ ان کی بنائی ہوئی فلموں نے باکس آفس پر اچھا بزنس کیا۔

الطاف حسین کے مطابق، ’’شمیم آرا کو قدرت نے غیر معمولی طور پرنہایت عمدہ فنکارانہ صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ وہ چھوٹے عملے کا خیال رکھتی تھیں اور ہر کسی سے خوش دلی اور عزت سے پیش آتی تھیں۔ ان کے قہقہے اب بھی یاد آتے ہیں، ہم نے فلم ڈائریکٹرز ایسوسی ایشن کے انتخابات میں انہیں ووٹ ڈالنے کی درخواست کرتے تو وہ ہمیشہ آتیں، اپنے ووٹ کا حق استعمال کرتیں اور اپنی کمیونٹی کے ساتھ کھڑی ہوتیں۔ وہ آج ہم میں نہیں رہیں لیکن ان کا کام ہمیں ہمیش ان کی یاد دلاتا رہے گا۔‘‘