1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مالاکنڈ ڈویژن میں عسکریت پسند اور سیکیورٹی فورسز برسرِ پیکار

فرید اللہ خان، پشاور5 مئی 2009

قبائلی علاقوں اور ملاکنڈ ڈویژن میں عسکریت پسندوں کی پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کاروائیوں سے ایسا لگ رہاہے کہ عسکریت پسندوں نے سولہ فروری کو ہونے والے امن معاہدے کے بعد بھرپور تیار ی کرلی ہے۔

https://p.dw.com/p/HkJ0
مینگورہ اورنواحی علاقوں میں قبضے کے دوران عسکریت پسندوں نے بڑے پیمانے پر بارودی سرنگیں بچھادی ہیںتصویر: AP

خیبر ایجنسی، مومند ایجنسی اور ملاکنڈ ڈویژن میں خودکش حملے، سیکورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے اور آپریشن کے نتیجے میں درجنوں افرادہلاک ہوئے ہیں۔ پشاورکے قریب واقع خیبرایجنسی کے باڑہ قدیم چیک پوسٹ پر خودکش حملے کے نتیجے میں دو بچوں اور تین شہریوں سمیت گیارہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

اس دھماکے میں جاں بحق ہونے والے طالب علم اور حافظ قران یاسین کے والد اور بھائی کا کہنا ہے کہ یہ کسی انسان کا کام نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یاسین گھر سے سکول جانے کے لیے نکلا تھا کہ دھشت گردی کی نظر ہو گیا۔

Karte Taliban
تصویر: Faridullah Khan

پشاور پولیس کے سربراہ صفت غیور کا کہناہے کہ خودکش حملہ قبائلی علاقوں اورملاکنڈ ڈویژن میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کاردعمل ہوسکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حملہ آور کا ٹارگٹ کہیں اور ہوسکتا تھا تاہم سخت سیکورٹی کی وجہ سے وہ اپنے ہدف نہ پہنچ سکا۔

دوسری جانب مومند ایجنسی میں عسکریت پسندوں نے سیکورٹی فورسز پرحملہ کیا جس پر جوابی کارروائی کے دوران سیکورٹی فورسز نے سولہ عسکریت پسندوں کوہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔ مومند ایجنسی کے علاقہ سپن کئی اور قندہارو میں لڑائی کے دوران سیکورٹی فورسز کے دو اہلکار ہلاک جب کہ تین لاپتہ ہوئے ہیں ملاکنڈ ڈویژن کے تین اضلاع سوات، بونیر اور دیر میں سیکورٹی فورسز عسکریت پسندوں کے خلاف نبردآزما ہیں۔

بونیر میں دو نئے علاقوں گاگرا اور کل پانئی پر فوج نے کنٹرول حاصل کیا ہے تاہم شل بانڈی اور پیر بابا سے مزاحمت کا سامنا ہے۔ ان جھڑپوں کے دوران سات افراد ہلاک ہوئے جب کہ سوات میں عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں شدت دیکھنے میں آئی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ امن معاہدے کے دوران سوات طالبان نے بھرپور تیاری کی ہے۔

Neue Militäroffensive gegen Taliban in Pakistan
مینگورہ شہر پر قبضہ کرنے کے بعد رات بھر سیکورٹی فورسز نے عسکریت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں پر بمباری کی ہےتصویر: picture-alliance/ dpa

مینگورہ شہر پر قبضہ کرنے کے بعد رات بھر سیکورٹی فورسز نے عسکریت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں پر بمباری کی ہے۔ مجموعی طورپر سوات میں سیکورٹی فورسز اورطالبان کی جھڑپوں میں سیکورٹی اہلکاروں سمیت بارہ شہری ہلاک جب کہ بیس سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ کرفیو کی خلاف ورزی پر چار افراد کو گولی مارکر ہلاک کیا گیا ہے۔ عسکریت پسندو ں نے رحیم آباد کے خالی پولیس چوکی کو بموں سے اڑادیا ہے جبکہ متاثرین کیلئے بین الاقوامی اداروں کی جانب سے اشیاء خوردونوش کے گودام بھی لوٹ لیے گئے۔

مینگورہ اورنواحی علاقوں میں قبضے کے دوران عسکریت پسندوں نے بڑے پیمانے پر بارودی سرنگیں بچھادی ہیں جس کی وجہ سے سیکورٹی فورسز سمیت عوام کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے مینگورہ کے چار بڑے علاقوں قمبر، امان کوٹ، رحیم آباد اور مکان باغ کے عوام کو علاقے خالی کرنے کا اعلان واپس لیتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ یہ اعلان غلط فہمی کانتیجہ ہے اورعوام نقل مکانی سے گریز کریں۔

انتظامیہ نے موٹرسائیکل سواری پر پابندی عائد کی ہے جب کہ کرفیو میں ڈیڑھ بجے سے شام سات بجے تک نرمی کااعلان کیا ہے۔ کرفیو میں نرمی ہوتے ہی ہزاروں کی تعداد میں شہری علاقہ چھوڑنے کے لئے بس اسٹینڈ پہنچ گئے جو ٹرانسپورٹ سے خالی تھا۔

گزشتہ دس دنوں کے دوران دیر اور بونیر آپریشن کی وجہ سے ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں جب کہ قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے ساڑھے پانچ لاکھ افراد بھی رجسٹرڈ کیے گئے ہیں۔ نقل مکانی کرنے والے لوگوں نے مردان، چارسدہ، صوابی، نوشہرہ اور پشاور میں رہائش اختیار کی ہے تاہم جو لوگ کیمپوں میں رہ رہے ہیں انہیں شدیدمشکلات کا سامنا ہے۔

مردان میں آج بھی نقل مکانی کرنے والے متاثرین نے رجسٹریشن نہ ہونے اور سہولیات کی عدم فراہمی پر احتجاج کیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ صوبائی حکومت نے ایک روز قبل نقل مکانی کرکے آنیوالوں کے لئے انتظامات کرنے کا دعویٰ کیا تاہم اب صوبہ سرحد کے وزیر اطلاعات میاں افتخارحسین کا کہناہے کہ جس تیزی سے لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں اس سے خدشہ ہے کہ ملاکنڈ ڈویژن سے آئندہ چند دنوں میں مزید پانچ لاکھ لوگ نقل مکانی کریں گے جس کے لیے صوبائی حکومت نے محدود وسائل کے باوجودہنگامی بنیادوں پر فنڈز جاری کردیئے ہے۔