مالیاتی بحران پیدا کرنے والے اپنی زمہ داری پوری کریں: جرمن چانسلرمیرکل
4 اکتوبر 2008یہ بات جرمن چانسلر میرکل نے ہفتے کے روز پیرس میں یورپی وینین کے چار ممالک پر مشتمل اجلاس میں شرکت سے قبل کہی۔ یورپی یونین کے صدر ملک فرانس کی جانب سے طلب کئے گئے اس اجلاس میں میں جرمنی کے علاوہ یورپ کی تین بڑی معیشتیں، برطانیہ، فرانس اور اٹلی شرکت کر رہے ہیں۔
میرکل کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب یہ قیاس کیا جا رہا تھا کہ فرانس کے صدر نکولا سارکوزی امریکی طرز کے ایک یورپی بیل آؤٹ پلان کو منظور کروانا چاہتے ہیں جس کی مشترکہ رقم تین سو بلین یوروز بتائی گئی تھی۔ یاد رہے کہ مالیاتی بحران کے تدارک کے لیے امریکہ میں سات سو بلین ڈالرز کا ایک بیل آؤٹ پیکج منظور کیا گیا ہے جس کا مقصد بحران کا شکار مالیاتی اداروں کو بچانے کے لیے ریاستی مداخلت اور ٹیکس دہندگان کی رقم کو استعمال کرنا ہے۔ مگر فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی کا کہنا ہے کہ وہ امریکی طرز کے یورپی بیل آؤٹ پلان کے حق میں نہیں ہیں۔ برطانوی وزیرِ اعظم گورڈن براؤن بھی اس تجویز کو رد کرچکے ہیں۔
جرمنی اور برطانیہ کا موقف ہے کہ دیوالیہ ہوئے، یا دیوالیہ ہونے کے قریب مالیاتی اداروں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہرادارے کے لیے انفرادی پالیسی تیّار کی جائے۔
تاہم چاروں سربراہانِ مملکت اس بات پر متفّق ہیں کہ یورپ کو سرمایہ داری نظام کے بحران سے نمٹنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے۔ ان سربراہانِ مملکت کی یہ بھی کوشش ہے کہ اگلے ہفتے واشنگٹن میں صنعتی طور پر ترقّی یافتہ جی ایٹ ممالک کے وزرائے تجارت کے اجلاس سے قبل ہی کوئی مشترکہ موقف اختیا کرلیا جائے۔
اس اجلاس میں چاروں ممالک آئرلینڈ کی حکومت کے اس فیصلے پر بھی تبادلہّ خیال کریں گے جس میں اس نے اپنے بینکوں میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو سو فیصد تحفظ فراہم کرنے کی پالیسی اختیار کی ہے۔ آئرلینڈ کی حکومت کے اس فیصلے کے نتیجے میں ایک بڑی تعداد میں برطانوی سرمایہ کاروں نے آئرلینڈ کے بینکوں کی جانب رخ کرنا شروع کردیا ہے جس کی وجہ سے برطانوی وزیرِ اعظم گورڈن براؤن کو داخلی دباؤ کا سامنا ہے۔ خود جرمن چانسلر میرکل کی حکومت بھی داخلی عدم استحکام کا شکار ہے۔
دوسری جانب آئی ایم ایف نے یورپی ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ سرمایہ داری کے مالیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے مشترکہ پالیسی اپنائیں۔ آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ یورپی ممالک کو اپنے اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے انفرادی پالیسیاں نہیں اختیار کرنا چاہیے۔