1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مانع حمل ذرائع اور بھارتی خواتین کی نئی ترجیح

27 جولائی 2010

بھارت میں ان مانع حمل ادویات کے بہت زیادہ استعمال پر ان دنوں شدید تنقید کی جا رہی ہے، جن کی غلط انداز میں تشہیر کے باعث حکومت ان کے اشتہارات پر پابندی لگا چکی ہے۔ یہ ادویات morning-after pills کہلاتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/OVdE
آنجہانی بھارتی خاتون نروپما رنجن جس کے حاملہ ہونے کو چھپانے کے لئے اس کے گھر والوں نے اسے قتل کر دیاتصویر: DW

ایسی ادویات خواتین اس لئے استعمال کرتی ہیں کہ وہ حاملہ نہ ہوں اور یہ انہیں جنسی رابطوں کے بعد ہر مرتبہ زیادہ سے زیادہ تین دن کے اندر استعمال کرنا ہوتی ہیں۔ اسی وجہ سے ایسی دواؤں کو ’’مارننگ آفٹر پلز‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق ایسی ادویات صرف ہنگامی حالات میں ہی مانع حمل ذرائع کے طور پر استعمال کی جانی چاہیئں کیونکہ وہ حمل کو روکنے کے لئے معمول کے ذرائع میں شمار نہیں ہوتیں اور اسی مناسبت سے انہیں Emergency Contraceptive Pills یا ECPs کا نام دیا جاتا ہے۔

بھارت میں حکومت نے ان ادویات کی تشہیر پر سماجی اور طبی حلقوں کی طرف کی جانے والی تنقید کے بعد اس لئے پابندی لگا دی تھی کہ ملکی ذرائع ابلاغ میں ایسی ادویات تیار کرنے والے ادارے انہیں ہنگامی مانع حمل ذرائع کے بجائے بنیادی یا پرائمری contraceptives کے طور پر پیش کر رہے تھے۔

BdT Schwangere mit Bauchbemalung
جنوبی چین کے ایک ثقافتی میلے کے دوران حاملہ خواتین کے جسموں پر اس طرح ایک روز کے لئے مصوری کی جاتی ہے کہ شکم مادر میں موجود بچے کا استقبال کیا جا سکےتصویر: AP

اس حوالے سے بھارتی حکومت کی تشویش کی وجہ اب یہ ہے کہ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے اس دوسرے سب سے بڑے ملک میں خاص طور پر شہری علاقوں میں رہنے والی نوجوان خواتین میں ایسی ادویات کا استعمال بہت مقبول ہوتا جا رہا ہے۔

بھارتی معاشرہ اپنی اقتصادی ترقی اور بڑے شہروں میں مقابلتاﹰ قدرے جدید طرز زندگی کے باوجود آج بھی زیادہ تر ایک قدامت پسند معاشرہ ہے، جہاں ان دنوں ایسی ادویات کسی بھی دوا فروش کی دکان سے کسی ڈاکٹری نسخے کے بغیر آسانی سے خریدی جا سکتی ہیں۔ اس کے برعکس اکثر مغربی ملکوں میں ایسی ادویات استعمال کرنے والی خواتین کو ان دواؤں کے حصول سے پہلے اپنے معالج سے باقاعدہ قانونی نسخہ حاصل کرنا پڑتا ہے۔

بھارت میں عام شہریوں کی جنسی صحت سے متعلق ایک ملکی تنظیم کی سربراہ اور معروف کلینیکل سائیکالوجسٹ رادھیکا چندرامنی کہتی ہیں کہ گزشتہ برس ملک میں ایسی مانع حمل ادویات یا ECPs کے 8.2 ملین پیکٹ فروخت کئے گئے۔ یہ تعداد ایک سال پہلے کے مقابلے میں 250 فیصد زیادہ تھی۔

Gegen Abtreibung Mexico Stadt
میکسیکو سٹی میں اسقاط حمل کے مخالف سماجی حلقوں کی طرف سے کئے جانے والے خاموش علامتی مظاہرے کی ایک تصویرتصویر: AP

اکثر بھارتی طبی حلقوں کو یہ شکایت بھی ہے کہ جنوبی ایشیا کی اس ریاست میں ایسی ادویات کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ اکثر خواتین یہ ادویات استعمال کرنے لگی ہیں اور انہیں یہ بتانے والا کوئی نہیں کہ ایسی دواؤں کے مسلسل اور ایک صارف کے طور پر بے دریخ استعمال کے کیا طبی نتائج نکل سکتے ہیں۔

نئی دہلی میں ایک فارمیسی کے مالک رپن ناتھ کا کہنا ہے کہ ایسے مانع حمل ذرائع استعمال کرنے والی خواتین کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اور بھارت میں ایسی جو دو دوائیں سب سے زیادہ فروخت ہو رہی ہیں ان میں سے ایک کا نام I-pill ہے اور دوسری Unwanted 72 کہلاتی ہے۔ رپن ناتھ کے بقول ان کے پاس ایسی ادویات کی خریداری کے لئے آنے والے گاہکوں میں سے کئی تو بیک وقت ایسی ECPs کے چار چار ڈبے خرید لیتے ہیں۔

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں قائم طبی بنیادوں پر اسقاط حمل کے لئے قومی اتفاق رائے نامی کنسورشیم کے اعداد و شمار کے مطابق اس ملک میں ہر سال 11 ملین خواتین اپنا حمل ضائع کروا دیتی ہیں اور دوران حمل پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کی وجہ سے بھارت میں سالانہ بنیادوں پر قریب 20 ہزار خواتین کی موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔

رپورٹ: عصمت جبیں

ادارت: مقبول ملک