1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ماہ اکتوبر: پشاورمیں دہشت گردانہ کارروائیوں کا میزانیہ

30 اکتوبر 2009

اکتوبر کا مہینہ اس لحاظ سے پشاور کے شہریوں بربھاری گ‍زرا کہ اس دورادن چار بم دھماکوں اورخودکش حملوں نے بچوں اور خواتین سمیت 176افرادکی جان لی جبکہ 4 سو سے زیادہ زخمی ہوئے۔

https://p.dw.com/p/KJUq
تصویر: AP

پشاورمیں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف تاجر برادری نے تین روزہ سوگ کے آخری دن شہر بھر میں ہڑتال کی اس دوردان سڑکوں پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر رہی جبکہ زیادہ تر کاروباری مراکز بند رہے۔

تاجر برادری نے حکومت سے امن وامان کے قیام کیلئے موثر اقدامات اٹھانے اور تاجروں کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ دھماکوں میں ہونے والے نقصان کے ازالے کا بھی مطالبہ کیاہے۔ لیکن دوسری جانب سرحد حکومت کے ترجمان میاں افتخارحسین عوام کو ہمت سے کام لینے اور دہشت گردوں کامقابلہ کرنے کی اپیل کررہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ عوام کی حمایت سے مالاکنڈ کی طرح تمام دہشت گردوں کو ہر جگہ شکست دیں گے۔

Opfer von Selbstmordanschlag in Lahore, Pakistan
خود کش دھماکوں کے اس سلسلہ کا آغاز1995ء میں اسلام آباد میں مصری سفارتخانے سے ہواتصویر: AP

میاں افتخار نے کہا: ”جس طرح لوگ ہم سے لپٹ کر اور رورو کر پوچھتے رہے کہ آخر ہم کب تک مریں گے کب تک قربانیاں دیں گے تو ان کویہی جواب دوں گا کہ ہم ان کو یاد دلانا چاہیے کہ اگر دہشتگردوں کے یہ عزائم پورے ہوگئے اورعوام نے ہمت ہاردی تو پھر مالاکنڈ ڈویژن جیسی صورتحال یہاں بھی ہوگی نہ گھروں میں محفوظ ہوں گے نہ ماں اور بیٹیاں محفوظ ہوں گی نہ ہمارے مردے جو قبروں وہ نکال کر پھانسی پرلٹکاتے رہے۔ عدالتیں لگاتے رہے عورتوں کو کوڑے دیتے رہے متوازی عدالتیں لگایا کرتے تھے ظلم کا ایک بازار گرم کررکھا تھا بیٹوں کوماﺅں اورماﺅں کو بیٹوں کے سامنے گولیوں سے چھیلنی کرتے تھےایک دہشت تھی ایک وحشت تھی اورآخر کارہم نے انہیں وہاں شکست دی توعوام سے یہی اپیل کرتاہوں کہ جس طرح مالاکنڈ میں ہم نے ہمت نہیں ہاری اوراس وقت تک کارروائی نہیں روکی جب تک دہشت گردوں نے کمر نہ توڑ دی ۔‘‘

Pakistan Armee rückt erneut gegen Taliban vor 17.Oktober 2009
17اکتوبر کو تیس ہزار فوجیوں نے جنوبی وزیرستان میں جنگجوؤں کے خلاف زمینی کارروائی شروع کیتصویر: AP

اکتوبر2009ء میں پشاورمیں اس میں تیزی دیکھنے میں آئی نو اکتوبر کو تجارتی مرکز خیبر بازار میں کار بم دھماکےمیں 51 افراد ہلاک جبکہ 120سے زیادہ زخمی ہوئے 15اکتوبر کو کوہاٹ روڈ پر سرکاری رہائشی کالونی گلشن رحمان میں کاربم دھماکہ سے ایک بچہ جاں بحق جبکہ پانچ زخمی ہوئے دوسرے روز یعنی 16اکتوبر کو سواتی پھاٹک خودکش حملے میں بارہ افراد ہلاک جبکہ 52 سے زیادہ زخمی جبکہ 28اکتوبر کو گنجان آباد علاقے مینابازار میں ہونے والے کاربم دھماکہ نے 112افراد کی جان لی اس دھماکہ میں 3 سو افراد زخمی ہوئے۔ جن میں ابھی تک تیرہ کی لعشیں پہچان کیلئے مردہ خانے میں پڑی ہیں۔

ان دھماکوں کی روک تھام کیلئے صوبائی حکومت اقدامات اٹھارہی ہے لیکن عوام ان اقدامات سے مطمئن نہیں ہیں عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے کمشنر پشاور اعظم خان کا کہناہے کہ ہر جگہ پولیس کی نفری فراہم کرنا ممکن ہی نہیں دہشت گردی پر قابوپانے کیلئے کمیونٹی پرمشتمل ٹیمیں بنانے پرغور کیاجارہا ہے۔ ’’یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ہر جگہ سوفیصد پولیس کی نفری تعینات کی جائے اس لیے ہم مارکیٹ ایسوسی ایشن اوریونین کے لوگ اس میں شامل کریں گے کہ وہ بھی اپنے اپنے علاقوں کو محفوظ بنانے میں اپنا کردارادا کریں اس طرح واقعات میں کہیں نہ کہیں کوتاہیاں ہوتی ہیں لیکن بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہرکوئی اپنی کوتاہی سے سیکھ کر اسے دور کرے“

ادھروزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران دوسیکورٹی اہلکاروں سمیت چودہ عسکریت پسند ہلاک ہوئے سیکورٹی فورسز نے کانی گرام کےعلاقے سمیت متعدد مقامات میں پیش قدمی کا دعوی کیا ہے۔ سرچ آپریشن کے دوران سیکورٹی فورسز نے عسکریت پسندوں کے مختلف ٹھکانوں سے غیرملکی اسلحہ سمیت پاسپورٹ اوردیگردستاویزات بھی برآمد کیے ہیں۔ سیکورٹی فورسز کا کہنا ہے کہ کانی گرام میں ازبک ، تاجک ، چیچن اور عرب جنگجو موجود ہیں اس علاقے کاکنٹرول حاصل کرنے کے بعد لدھا اورمکین تک پہنچنے کی راہ ہموار ہوگی۔

رپورٹ: فرید اللہ خان ، پشاور

ادارت: عاطف بلوچ