1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مبینہ امریکی میزائیل حملے اور طالبان کی بڑھتی کارروائیاں

فرید اللہ خان، پشاور1 اپریل 2009

پاکستان اور امریکہ میں حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود دہشت گردی کے خلاف جنگ کی پالیسیوں میں کوئی واضح تبدیلی سامنے نہیں آئی۔

https://p.dw.com/p/HOQo
میزائیل حملوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ طالبان کارروائیوں میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہےتصویر: AP / DW-Fotomontage

امریکہ میں باراک اوباما کی کامیابی کے بعد پاکستان کے عوام کو یقین تھاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی پالیسی میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقوں پر جاسوسی طیاروں کے حملوں میں کمی آئےگی اورپھرجب صدر باراک اوباما نے قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں پرمیزائل حملے سے قبل پاکستان کو اعتماد میں لینے کاکہا تو پاکستان اور بالخصوص قبائلی علاقوں کے عوام نے بھی سکھ کا سانس لیا لیکن یہ اعلان صرف اعلان ہی ثابت ہوا اور قبائلی علاقوں پرمیزائل حملے جاری رہے۔

سال رواں کے تین ماہ کے دوران قبائلی علاقوں پر امریکی جاسوسی طیاروں نے گیارہ میزائل حملے کئے ہیں جس میں سو سے زیادہ افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے ماہ رواں کا پہلا حملہ اورکزئی ایجنسی کے علاقہ خادیزئی میں طالبان کے تربیتی مرکز پرکیاگیا جس میں چودہ افراد ہلاک جبکہ پندرہ زخمی ہوئے۔

مقامی ذرائع کے مطابق مقامی ہسپتال میں چھ لاشوں سمیت پندرہ زخمیوں کو لایاگیا جس میں اکثریت مقامی طالبان کی ہے امریکی ڈرون حملوں کی وجہ سے عسکریت پسندوں کی کاروائیوں میں بھی اضافہ ہوتاجا رہا ہے۔ خودکش حملوں اور بم دھماکوں میں اضافے سے امن وامان کی صورتحال بگڑتی جارہی ہے اوراب زیادہ تر لوگوں کا یہی مطالبہ ہے کہ آٹھ سال تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں زیادہ تر عام لوگ ہی دہشت گردی کاشکار رہے ہیں لہذا اب پالیسیوں پرنظرثانی کرکے مذاکرات اوربات چیت کے ذریعے مسائل کاحل تلاش کیاجائے۔

دفاعی تجزیہ نگار اور ریٹائرڈ میجر جنرل ایاز بھی اسی طرح کے پالیسی کے حق میں ہیں ان کاکہنا ہے: ’’ اس طرح کے لوگوں کو ملٹری ایکشن کے ذریعے ختم نہیں کیاجاسکتا ملٹری ایکشن عارضی ہوتا ہے اس ایکشن کا زبردست اثر ہوتاہے لیکن جب آپ کاپلہ بھاری ہوجاتا ہے توآپ کو دوسری طرف چلنا چاہئے اب یہ ہمارے لوگ ہیں راستہ بھول چکے ہیں ان کو صحیح راستے پر لانا ہے میں طالبان کے ساتھ بات چیت مذاکرات اور سیاسی عمل پریقین رکھتاہوں ان کے علاقوں میں ترقیاتی کام ہونے چاہیں جو لوگ ہتھیار رکھتے ہیں توان کے ساتھ ہمیں دوسرے طریقہ سے نمٹنا ہوگا اور جو لوگ القاعدہ کے ہیں جو بات نہیں سمجھے اور ہمارے ملک میں آتے ہیں اورہمارے حالات خراب کرتے ہیں توہمیں ان کے ساتھ دوسرے طریقے سے ڈیل کرنا ہوگا۔‘‘

دوسری جانب سرحد حکومت نے طالبان کے مزید دس ساتھیوں کورہا کردیا ہے امن معاہدے کے بعد رہائی پانے والوں کی تعداد 44ہوگئی ہے تاہم سوات میں پرتشدد کاروائیاں بھی جاری ہیں سوات کے علاقہ بحرین میں سابق وفاقی وزیر اورمسلم لیگ (ق) کے صوبائی صدر امیر مقام کی رہائش گاہ پر عسکریت پسندوں نے قبضہ کرنے کے بعد اسے بارودی مواد سے اڑایا دیا ہے۔ اسی طرح مومندایجنسی کے تحصیل صافی اورلکڑو میں سیکورٹی فورسز پر دوحملوں کے نتیجے تین اہلکار ہلاک جبکہ تین زخمی ہوئے ہیں۔ سوات کے بعد ضلع دیر اور مومند ایجنسی میں امن وامان کی صورتحال تیزی سے خراب ہورہی ہے۔