1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

متنازعہ ایرانی جوہری پروگرام اور ہلیری کلنٹن

رپورٹ:عابد حسین ، ادارت : امجد علی12 اکتوبر 2009

ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام پر عالمی خدشات اور تحفظات کو دور کرنے کے لئے ایران پہلی اکتوبر سے مذاکرات کی میز پر بیٹھ تو گیا ہے لیکن بین الاقوامی کمیونٹی ابھی بھی تذبذب کا شکار ہے۔

https://p.dw.com/p/K4C5
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اور ایرانی وزیر خارجہ منو چہر متقی : فائل فوٹوتصویر: picture-alliance/ dpa / DW-Montage

ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے عالمی طاقتوں سے کہا ہے کہ اُنیس اکتوبر کی ویانا میٹنگ اُن کے ملک کے جوہری پروگرام کے سلسلے میں ایک آزمائش ہے اور اُس کے نتائج کی روشنی میں مزید مفید تعاون کا عمل جاری رکھا جائے گا۔ احمدی نژاد کے یہ خیالات سرکاری ایرانی میڈیا سے نشر کئے گئے ہیں۔

ایرانی صدر احمدی نژاد کا مزید کہنا ہے کہ اُنیس اکتوبر کی میٹنگ کی ناکامی اور پابندیوں سے ایران کم اور مغرب زیادہ متاثر ہوگا۔ ایران کی جوہری ایجنسی کے سربراہ ڈاکٹر علی اکبر صالحی اگلے منگل یعنی انیس اکتوبر کو بین الاقوامی جوہری ایجنسی کے صدر دفتر واقع ویانا میں اقوام متحدہ کے ادارے سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین اور جرمنی کے نمائندوں سے ملاقات کریں گے۔ تب یورینیم کی افزودگی پر مزید بات چیت کی جائے گی خاص طور پر اِس رُخ میں کہ ایران سے کم افزودہ یورینیم کی دوسرے ملکوں میں کیسےمزید افزودگی ممکن ہو سکتی ہے۔ اِس مناسبت سے ایران پہلی اکتوبر کے جنیوا مذاکرات میں رضامند تھا۔

Russland Sicherheitsgipfel in Jekaterinburg
روسی اور ایرانی صدور : فائل فوٹوتصویر: AP

ایرانی صدر نے اِس عمل کو شفاف اور قابلِ عمل بنانے کو عالمی طاقتوں کی آزمائش سے تعبیر کیا ہے۔ اُن کے مطابق اب دیکھنا یہ ہے کہ تین سے پانچ فی صد تک افزودہ یورینم ناتانز کے جوہری مرکز سے لے کر ایران سے باہر کس انداز میں بیس فی صد تک افزودہ کیا جائے گا۔ ایران بیس فی صد افزودہ یورینم کو تہران کے جوہری طبی مرکز میں استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

دوسری جانب یورپ کے دورے پر آئی ہوئی امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے لندن میں اپنے برطانوی ہم منصب ڈیوڈ ملی بینڈ سے ملاقات کے بعد ایران کے حوالے سے کہا کہ وہ اِس پر متفق ہیں کہ جنیوا میں بات چیت کا عمل ایک تعمیری شروعات ہے۔ اِس کے بعد عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ اب الفاظ کا استعمال کافی نہیں۔ امریکی وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ عالمی برادری کی جانب سےیک زبان ہو کر ایک واضح پیغام ایران کو دے رہے ہیں کہ بین الاقوامی کمیونٹی اب مزید شواہد کے حصول میں غیر معینہ مدت کے انتظار میں نہیں رہے گی، ایران کو عالمی برادری کی ذمہ داریوں اور توقعات پر پورا اترنا ہوگا۔

Iran Russland Atomanlage in Bushehr
ایرانی مقام بوشہر میں قائم جوہری مرکزتصویر: AP

امریکی وزیر خارجہ نے جون کے الیکشن کے بعد مظاہرین کے ساتھ حکومتی سلوک پر بھی کڑی نکتہ چینی کی ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ اُن کا بیان ایرانی عدالت کی جانب سے جون الیکشن کے بعد گرفتار کئے گئے تین مظاہرین کو سزائے موت کا حکم سنائے جانے پر ردعمل ہو سکتا ہے۔

ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام پر ویانا بات چیت کے بعد اِس ماہ کے آخر میں امکاناً اقوام متحدہ کے ادارے سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین اور جرمنی کی ایرانی مذاکرات کار کے ساتھ ایک اور میٹنگ متوقع ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے جس طرح برطانیہ میں وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ کے ساتھ ایرانی جوہری پروگرام پر بات کی ہے، اسی طرح وہ اپنے دورہٴ روس کے دوران بھی اِسے خاصی اہمیت دینے کا ارادہ رکھتی ہیں۔