1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’مجھے دفنانے کے بجائے منجمد کر دیا جائے‘

صائمہ حیدر
18 نومبر 2016

کینسر کے مرض میں مبتلا ایک برطانوی کم عمر لڑکی نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ اُسے مرنے کے بعد دفنایا نہ جائے بلکہ اُس کے جسم کو منجمد کر دیا جائے۔ برطانوی عدالت نے اِس لڑکی کی یہ درخواست منظور کر لی ہے۔

https://p.dw.com/p/2SsYz
Großbritannien Oberster Gerichtshof in London
 لبِ مرگ نوعمر مریضہ کے خط نے برطانوی ہائی کورٹ کو اُس کی آخری خواہش پوری کرنے پر قائل کر لیا ہےتصویر: Getty Images/D. Kitwood

 چودہ سالہ برطانوی لڑکی کا موقف ہے کہ وہ اس لیے دفن ہونا نہیں چاہتی تاکہ مستقبل میں جب کینسر کے مرض کا علاج دریافت ہو تو اُس کے دوبارہ زندہ ہونے کا امکان باقی رہ سکے۔ سرطان کی مریضہ برطانوی بچی نے عدالت کو اپنی دن بدن قریب آتی موت سے پہلے ایک خط میں لکھا ہے، ’’ میں طویل عرصے تک جینا چاہتی ہوں اور مجھے امید ہے کہ جب مستقبل میں میرے مرض کا علاج دریافت ہو جائے گا تو میں دوبارہ زندگی حاصل کر سکوں گی۔ ‘‘لڑکی نے اس کو اپنی آخری خواہش بھی قرار دیا

برطانوی لڑکی نے جج کے نام خط میں مزید لکھا، ’’ انتہائی کم درجے پر منجمد کرنے کے طریقہء کار (CRYOPRESERVATION) کے ذریعے مجھے دوبارہ زندہ ہونے اور کینسر کے مرض سے نجات حاصل کرنے کا موقع مِل سکتا ہے۔ خواہ میرا جسم سینکڑوں سال تک ہی منجمد کیوں نہ رہے۔ ‘‘

 لبِ مرگ نوعمر مریضہ کے اِن الفاظ نے ہائی کورٹ کے جج پیٹر جیکسن کو اُس کی آخری خواہش پوری کرنے پر قائل کر لیا ہے۔ فاضل جج کا کہنا ہے کہ یہ برطانیہ اور ممکنہ طور پر پوری دنیا میں اِس نوعیت کا پہلا کیس ہے۔ عدالت کے مطابق اِس بچی نے محفوظ کیے جانے کے سب سے بنیادی حق کا مطالبہ کیا ہے اور جسم کو فریز کرنے کے عمل میں تقریباً 37 ہزار برطانوی پونڈ یا 46 ہزار ڈالر لاگت آئے گی۔

لڑکی کے علیحدگی اختیار کر جانے والے والدین میں اُن کی بیٹی کے جسم کو فریز کیے جانے کے طریقہٴ کار سے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے۔ والدہ اِس کے حق میں ہیں لیکن والد اِس سے اختلاف رکھتے ہیں۔ تاہم جیسے جیسے سرطان کے مرض میں مبتلا اِس بچی کی موت کا وقت قریب آ رہا ہے، بچی کے والد نے بھی اپنے موقف میں نرمی پیدا کر لی ہے۔ لڑکی اور اُس کے والدین کا نام قانونی وجوہات کے سبب ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔

 برطانوی بچی اور اُ س کے والدین نے عدالت سے کہا ہے کہ اُس کی ماں کو اُس کے جسم پر تصرف دیا جائے تاکہ اُسے ’کریو جینیکلی‘ طریقے سے محفوظ کیا جا سکے۔ یہ ایک غیر ثابت شدہ تکنیک ہے جس میں چند افراد کے نزدیک نقطہء انجماد سے بہت نیچے درجے پر جمائے ہوئے اجسام کو مستقبل میں زندگی کی طرف واپس لانا ممکن ہو سکے گا۔

 طبی حلقوں میں تاہم اس عمل کو کافی حد تک شک و شبہے کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ برطانوی جج کے فیصلے کے بعد اِس بیمار بچی کی باقیات کو امریکا میں اِس مقصد کے لیے قائم ایک خاص ادارے میں لے جانے اور منجمد کرنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔