1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

محبت نے ’تین سو سال پرانی بددعا‘ کا اثر ختم کر دیا

شمشیر حیدر AFP
6 مئی 2017

ایک میٹر چوڑا دریا چین کے دو دیہات کو ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔ لیکن ایک میٹر کا فاصلہ عبور کرنے میں تین سو برس صرف ہوئے وہ بھی تب جب ایک گاؤں کے لڑکے نے دوسرے گاؤں کی لڑکی سے شادی کی۔

https://p.dw.com/p/2cX2y
Hochzeit China
تصویر: picture-alliance/dpa

اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق چینی صوبے میں واقع فوجیان کے ووشان اور یوپو نامی دو دیہات کے مابین تین سو سال پرانی دشمنی چلی آ رہی تھی۔ ساڑھے سات ہزار نفوس پر مشتمل ان دونوں دیہات کے بیچ صرف ایک میٹر چوڑا دریا ہے۔

رپورٹوں کے مطابق اِن دیہات کے مابین تین سو سال پرانی دشمنی کے باعث دونوں گاؤں کے افراد پر ایک دوسرے سے شادی کرنے پابندی عائد تھی۔ اے ایف پی سے گفت گو کرتے ہوئے ووشان گاؤں کے رہائشی اور چین کی کیمونسٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاست دان وانگ نے بتایا، ’’کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ باہمی شادیوں پر پابندی کب عائد ہوئی تھی، ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ تین سو سال پہلے دریا کے پانی کے استعمال پر دونوں دیہات کے مابین جھگڑا ہوا تھا جو اس صدیوں پرانی دشمنی کا سبب بنا۔‘‘

اس دشمنی نے ’بد دعا‘ کی صورت اختیار کر لی تھی اور لوگوں کو یقین ہوتا چلا گیا کہ اگر کسی مرد یا عورت نے دوسرے گاؤں میں شادی کی تو یہ شادی طرفین کے لیے بدقسمتی کا سبب بنے گی۔ یہ وہم سینہ بہ سینہ دنوں دیہات کے باسیوں میں صدیوں تک قائم رہا۔

ہونگ ڈونگ نے بتایا کہ دنوں دیہات کے مابین آخری لڑائی ’’چالیس سال پہلے ہوئی لیکن اس کے بعد حالات بتدریج بہتر ہوتے گئے۔ خاص طور پر گزشتہ دس برسوں میں دونوں دیہات کے باسی ایک دوسرے کے قریب آتے گئے اور مل کر ایک فیکٹری بھی لگائی گئی جہاں دونوں طرفوں کے نوجوان لوگ مل کر کام کر رہے ہیں۔‘‘

لیکن باہمی تعلقات کی بہتری کے باوجود آپسی شادیوں پر عائد پابندی جاری رہی۔ وانگ کے مطابق طرفین کو یقین ِکامل تھا کہ اگر کسی نے شادی کی تو تین سو برس پرانی بددعا مصیبتوں کا سبب بن جائے گی۔

تین سال قبل ایک گاؤں کے لڑکے کو دوسرے گاؤں کی لڑکی سے محبت ہو گئی اور انہوں نے شادی کر لی۔ لیکن دونوں دیہات کے باسیوں نے انہیں گاؤں بدر کر دیا اور وہ اپنے آبائی گھروں سے پندرہ سو کلو میٹر کے فاصلے پر ایک دوسرے چینی شہر میں آباد ہو گئے۔ سن 2015 میں ان کی واپسی ہوئی تو لڑکے کے گھر والوں نے دونوں کو قبول کر لیا اور شادی کی باقاعدہ تقریب منعقد کی۔ تاہم لڑکی والوں نے اسی پرانے وہم کے سبب شادی میں شرکت سے انکار کر دیا۔

حال ہی میں ان کے حاں جڑواں بچوں کی پیدائش ہوئی جس کے بعد دنوں دیہات کے لوگوں کے ’بد دعا‘ پر یقین کرنا ختم کیا۔ رواں ہفتے ’بد دعا کے اثر‘ کے خاتمے کی باقاعدہ تقریب منعقد کی گئی جس میں دنوں دیہات کے پانچ سو سے زائد افراد نے شرکت کی۔

کرغیزستان میں دولہنوں کا اغوا ایک روایت