1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

محروم بچوں تک علم کی روشنی پہنچانے کا عزم

عنبرین فاطمہ، کراچی24 مئی 2016

کراچی ڈیفنس میں ایک خالی پلاٹ پر قائم عارضی اسٹریٹ اسکول محنت کش بچوں کے لیےعلم کی شمع روشن کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ اس اسٹریٹ اسکول کے بانی دو نوعمر بہن بھائی ہیں، جو خود بھی ابھی اسکول میں زیر تعلیم ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Itj5
Karachi Pakistan Hasan und Shirin geben Straßenkindern Unterricht
تصویر: privat

ڈیفنس میں واقع کیفے کلفٹن کی عمارت کے ساتھ ہی ایک خالی پلاٹ پر چند محنت کش بچے اے، بی، سی جبکہ دوسری جانب بعض بچے پہاڑے یاد کرتے نظر آتے ہیں۔ انہی میں ٹشو پیپر کے باکس سنبھالے ایک بچہ بڑی لگن سے اپنے سامنے رکھی کاپی میں اب تک کا یاد کیا ہوا سبق لکھ رہا ہے۔ یہ منظر ہے اس اسٹریٹ اسکول کا جیسے شیریں ظفر اپنے بھائی حسن ظفرکے ساتھ مل کر چلا رہی ہیں۔

ان دونوں بہن بھائی نے اس اسڑیٹ اسکول کا آغاز اب سے تقریباً چار ماہ قبل کیا تھا۔ 12 سالہ شیریں ایک نجی اسکول میں ساتویں جبکہ 15 سالہ حسن نویں کلاس کے طالبعلم ہیں۔

کم عمری میں ہی، جبکہ دونوں خود بھی ابھی زیر تعلیم ہیں، سڑکوں پر پھرتے بچوں کو تعلیم دینے کا خیال کس طرح آیا اس حوالے سے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے شیریں نے بتایا، ’’میں نے ابتدا سے ہی اپنے گھر میں اپنی والدہ اور دادی کو اپنے گھریلو ملازمین کے بچوں کو تعلیم دیتے ہوئے دیکھا اس لیے یہ خیال میرے لیے نیا نہیں تھا۔

Karachi Pakistan Hasan und Shirin geben Straßenkindern Unterricht
شیریں کے مطابق انہوں نے جب اسکول کا آغاز کیا تو اندازہ نہیں تھا کہ جلد ہی یہ ایک بڑے پراجیکٹ میں تبدیل ہو جائے گاتصویر: privat

شیرین کے مطابق، ’’پھر ایک دن میں سگنل پر کھڑی تھی کہ ایک بچی میرے پاس آئی اور اس نے مجھے انگریزی میں مخاطب کیا جس سے میں بہت متاثر ہوئی۔ اس بچی نے کہا کہ اسے پڑھنے کا بہت شوق ہے لیکن اسے گھر کی طرف سے اسکول جانے کی اجازت نہیں۔ میں نے گھر پر اپنے بھائی سے اس واقعے کا ذکر کیا اور تب ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم ان بچوں کو تعلیم دیں گے جن کو اسکول جانا میسر نہیں۔ ‘‘

حسن نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جب ان کی بہن نے اس واقعے کا ان سے تذکرہ کیا تو انہوں نے اسی وقت شیریں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا، ’’اسکول اور اپنی ٹیوشن کے بعد وقت نکالنا اتنا مشکل نہیں لگتا۔ میں نے سوچا کیوں نہ بچوں کو پڑھا کر میں اپنے وقت کا صحیح استعمال کروں۔‘‘

شیریں کے مطابق انہوں نے جب اسکول کا آغاز کیا تو اندازہ نہیں تھا کہ جلد ہی یہ ایک بڑے پراجیکٹ میں تبدیل ہو جائے گا، ’’ہم نے ابتدا میں تین بچوں کو پڑھانے کا سلسلہ شروع کیا اور اب تقریباً 40 بچے یہاں پڑھنے آتے ہیں۔ یہاں آنے والے بچوں کا تعلق مختلف علاقوں سے ہے۔ چونکہ ان بچوں میں سے زیادہ ترمحنت کش ہیں اس لیے یہ سب بہت باقاعدگی سے تو نہیں آ پاتے لیکن ان میں سے 25 سے تیس بچے روز ہی آ جاتے ہیں۔ ان کو میں اور بھائی مل کر ہفتے کے چھ دن شام چار سے چھ بجے تک پڑھاتے ہیں جبکہ ان کے لیے کتابیں اور کاپیاں بھی ہم ہی فراہم کرتے ہیں۔‘‘

حسن ظفر کے مطابق اسکول کی ابتدا کرتے وقت انہیں ان بچوں کے والدین یا ان لوگوں کی جانب سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا، ’’ان بچوں کا کہنا تھا کہ ان کی گزر بسر محنت سے کمائے ہوئے پیسوں سے ہوتی ہے۔ اگر وہ محنت کر کے کمانے کے بجائے تعلیم حاصل کرنے میں مصرف ہو گئے تو ان کا گھر چلنا مشکل ہے۔ اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے پہلے ان کے بڑوں کو سمجھایا اور انہیں یہ تحریک دی کہ اگر بچے پڑھنے آئیں گے تو انہں روزانہ پچاس روپے جیب خرچ دیا جائے گا۔ یہ جیب خرچ ہم اپنے پاس سے ہی ان بچوں کو دیتے ہیں۔‘‘

Karachi Pakistan Hasan und Shirin geben Straßenkindern Unterricht
بارہ سالہ شیریں ایک نجی اسکول میں ساتویں جبکہ پندرہ سالہ حسن نویں کلاس کے طالبعلم ہیںتصویر: privat

شیریں بتاتی ہیں کہ اس وقت انہیں سب سے زیادہ مسئلہ فنڈز کے حوالے سے درکار ہے کیونکہ اب تک وہ جتنے بھی اخراجات اس اسکول کو چلانے کی مد میں آتے ہیں، وہ سب انہیں اپنے ہی جیب خرچ سے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کو پڑھانے کے لیے کرسیاں اور ٹیبل اور پنکھوں کا انتظام بھی دونوں بچوں کے والدین کی جانب سے کر کے دیا گیا ہے۔

حسن اور شریں کے مطابق انہیں اب بھی کبھی کبھی لوگوں کی جانب سے دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اسکول بند کرنے پر زور دیتے ہیں تاہم ان حالات کے باوجود وہ ان غریب بچوں کے لیے علم کی شمع روشن کرنے میں مشغول رہیں گے اور کوشش کریں گے کہ ایسے ہی مزید اسکول شہر کے مزید علاقوں میں بھی کھول سکیں۔