1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’مدارس کی رجسٹریشن‘ ابھی تک ایک خواب ہی

شکور رحیم ، اسلام آباد22 اکتوبر 2015

پاکستان میں دہشتگردی کے خلاف قومی ایکشن پلان کے نفاذ کو دس ماہ گزرنے کے باوجود وفاقی حکومت دینی مدارس کی رجسٹریشن کا عمل شروع نہیں کر سکی ہے۔ تاخیرکی وجہ رجسٹریشن فارم پر مدارس کی نمائندہ تنظیموں کے شدید تحفظات ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GsYz
تصویر: AP

پاکستان میں دینی مدارس کے منتظمین کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے مدارس کے اندراج کے لیے جاری کیے گئے فارم میں 'غیر ضروری' اور بہت ہی 'پیچییدہ' معلومات طلب کی گئی ہیں۔ اتحاد تنظیمات المدارس کے ایک عہدیدار قاری حنیف جالندھری کے مطابق مدارس کے اندراج کے معاملے پر ان کے حکومت کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "ہمارا یہ کہنا ہے کہ مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے دوہزار پانچ میں وفاق اور صوبوں کی سطح پر قانون سازی کی جا چکی ہے اور اس کے تحت تمام ضروریات کا تعین بھی کیا جا چکا ہے، جس میں اندراج کا فارم بھی موجود ہے تو اس کے تحت حکومت آگے بڑھے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو بتانا ہے کہ وہ کیا ترامیم چاہتی ہے۔ تاہم قاری حنیف جالندھری نے اس سوال کا جواب دینے سے گریز کیا کہ انہیں مدارس کی رجسٹریشن کے نئے حکومتی فارم کے کس خانے پر اعتراض ہے؟ قاری حنیف جالندھری نے کہا کہ "عاشورہ محرم کے بعد حکومتی نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کا ایک اور دور ہو گا اور امید ہے کہ اس میں تمام معاملات طے ہو جائیں گے"۔

Pakistan Koranschule in Lahore Schüler
تصویر: AP

پشاور میں سولہ دسمبر کو فوج کے زیر انتظام سکول پر دہشتگردانہ حملے میں ڈیڑھ سو طلباء اور اساتذہ کے ہلاکت کے بعد جنوری میں انسداد دہشتگردی کا جو بیس نکاتی قومی ایکشن پلان نافذ کیا گیا تھا اس کا ایک اہم نقطہ دینی مدارس کی رجسٹریشن تھی۔ تاہم وفاقی حکومت اور دینی مدارس کی تنظیموں پر مشتمل "اتحاد تنظیمات المدارس" کے درمیان گزشتہ ماہ کے آغاز پر ہونے والا اہم اجلاس بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکا۔

وفاقی وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کے پانچ مکاتب فکر سے منسلک اٹھائیس ہزارمدارس میں تیس لاکھ سے زائد طلباء دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ستمبر میں وزیراعظم کی سربراہی اور بری فوج کے سربراہ کی موجودگی میں مدارس کے اتحاد کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ مدارس رجسٹریشن کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے س ضمن میں وفاقی سیکرٹری داخلہ کی سربراہی میں مدارس کے نمائندوں اور متعلقہ حکام پر مشتمل ایک کمیٹی کے قیام کا اعلان بھی کیا تھا۔ تاہم یہ کمیٹی بھی رجسٹریشن کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے میں تاحال کامیاب نہیں ہو سکی۔

پاکستان میں اردوزبان کے ایک قومی اخبار "روزنامہ اوصاف" سے منسلک اور مذہبی امور کی رپورٹنگ کا وسیع تجربہ رکھنے والے صحافی عمر فاروق کا کہنا ہے کہ اگر دونوں فریق سنجیدگی دکھائیں تو مدارس کی رجسٹریشن کا معاملہ جلد حل ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج سے دس سال پہلے جنرل پرویز مشرف کے دور میں دینی مدارس کے لیے اصلاحات کا اعلان کیا گیا لیکن کبھی ان پرعمل نہیں کیا گیا۔ عمر فاروق کے مطابق"اس معاملے میں جب بھی حکومت اور مدارس کے نمائندے مذاکرات کی میز پر بیٹھے ہیں کہا گیا کہ بات کافی آگے بڑھ چکی ہے لیکن عملاً ایسا نہیں ہوتا۔ بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ دراصل دونوں فریقین کے درمیان اتفاق رائے ہوا ہی نہیں تھا۔ تو میرے خیال سے اب جب بھی بات چیت ہو اس میں ایک دوسرے کے تمام تحفظات دور کر کے ہی اٹھا جائے۔" انہوں نے کہا کہ اگراس معاملے میں دونوں جانب سے کسی حتمی بات پر اتفاق کر لیا جائے تو مدارس کی رجسٹریشن ایک ماہ کے عرصے میں مکمل ہو سکتی ہے۔