1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخ

’مردوں کی نسبت خواتین جرمن معاشرے میں جلد ضم ہو رہی ہیں‘

22 فروری 2017

افغان تارک وطن زہرہ اسماعیلی 13 برس کی عمر میں جرمنی پہنچی تھی۔ آج وہ افغانستان کی پہلی بین الاقوامی فیشن ماڈل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے مہاجرین کی سہولت کے لیے ایک نئے منصوبے کا بھی آغاز کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2Y3t4
EMXD_19_11_15_Zohre_Neustart euromaxx
تصویر: DW

سن 1998 میں زہرہ اسماعیلی اپنے والدین کے ہمراہ افغانستان چھوڑ کر جرمن دارالحکومت برلن پہنچی تھیں۔ آج زہرہ برلن میں ایک مشہور فیشن ماڈل ہیں۔ وہ کئی بین الاقوامی فیشن شوز میں ماڈلنگ کر چکی ہیں۔ زہرہ کی زندگی کی کہانی آسان نہیں ہے۔ جرمن اسکول میں انہیں دیگر طلبا کی جانب سے تنگ کیا گیا اور اپنے گھر والوں نے اسے ماڈلنگ کے شعبے کو چھوڑنے اور گھر والوں کی مرضی سے شادی کرنے پر دباؤ ڈالا۔

زہرہ صرف فیشن کی دنیا میں ہی مصروف نہیں رہتی بلکہ وہ جرمنی میں مہاجرین کو اس معاشرے میں ضم ہونے میں بھی مدد فراہم کرنا چاہتی ہے۔ نوجوان ماڈل نے ’کلچرل کوچز‘ نامی ایک منصوبے کا آغاز کیا ہے جس کے ذریعے نہ صرف وہ مہاجرین کو جرمن معاشرے کو سمجھنے میں مدد فراہم کر رہی ہیں بلکہ جرمن شہریوں کو بھی دیگر ممالک کی ثقافت اور عقائد کے بارے میں آگاہ کرتی ہیں۔

Deutschland Zohre Esmaili
زہرہ جرمنی میں مہاجرین کو اس معاشرے میں ضم ہونے میں بھی مدد فراہم کرنا چاہتی ہےتصویر: A. Krizanovic

زہرہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس پروگرام کے ذریعے جرمن شہریوں اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کو تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ خود باقاعدہ کوچز یا تربیت کار بن سکیں۔ زہرہ کہتی ہیں کہ یہ منصوبہ ان کے لیے اس لیے بہت اہم ہے کیوں کہ وہ صرف مہاجرین نہیں بلکہ مقامی افراد میں بھی ثقافتی ہم آہنگی پیدا کرنے میں مدد فراہم کرنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ اس منصوبے کے ذریعے خاندان، تعلیم ، سیاست اور سماجی نظریات پر زیادہ توجہ دی جائے گی۔ عمومی طور پر یہ وہ معاملات ہیں جن میں مشکلات پیش آتی ہیں۔‘‘

زہرہ کہتی ہیں کہ جرمن معاشرے میں ضم ہونے میں سب سے پہلا قدم جرمن معاشرے کو سمجھنے کی خواہش ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ خواتین اور مردوں دونوں کو کوچز بنائے جانے کے لیے تربیت کرائی جائے گی۔  زہرہ سمجھتی ہیں کہ  زبان، رویے اور توقعات جرمن معاشرے میں ضم ہونے میں ایک چینلج ثابت ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ البتہ یہ بھی درست ہے کہ جرمنی مہاجرین کو  معاشرے کا حصہ بننے کے لیے موافق ماحول فراہم کرتا ہے۔