1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’مزید سورن سنگھ پیدا ہوتے رہیں گے‘

عاطف بلوچ23 اپریل 2016

تحریک طالبان پاکستان نے خیبر پختونخوا کے وزیر برائے اقلیتی امور سردار سورن سنگھ کے قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ تک ایسے حملے جاری رہیں گے۔

https://p.dw.com/p/1IbIB
Pakistan Trauer Bacha-Khan-Universität in Charsadda
سورن سنگھ کی ہلاکت پر پاکستان کے کئی حلقوں میں اظہار افسوس کیا جا رہا ہےتصویر: Reuters/K. Parvez

تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان محمد خراسانی کی طرف سے میڈیا کو جاری کی گئی ایک ای امیل میں کہا گیا ہے کہ سردار سورن سنگھ کو طالبان نے نشانہ بنایا۔ اس ای میل کے مطابق، ’’جب تک پاکستان میں اسلامی نفاذ کا نفاذ نہیں ہوتا، اس قسم کی کارروائیاں کی جاتی رہیں گی۔‘‘

پاکستانی سیاسی جماعت تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سردار سورن سنگھ کو جمعہ بائیس اپریل کے دن بونیر میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق موٹر سائیکل پر سوار مسلح حملہ آور انہیں ہلاک کرنے کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

خیبر پختنوا میں رونما ہونے والے تشدد کے اس تازہ واقعے پر تحریک انصاف کے متعدد سیاستدانوں اور انسانی حقوق کے کارکنان نے سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اس حملے کی شدید مذمت کی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے سرابراہ عمران خان نے صوبائی حکومت سے کہا ہے کہ وہ اس واقعے کی مکمل اور جامع تحقیقات کے لیے ایک کمیشن تشکیل دے۔ عمران خان نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا کہ سورن سنگھ کی ہلاکت پر وہ دھچکے میں ہیں۔

پاکستانی صوبے خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ اس قتل کی واردات کی مکمل تحقیقات کے لیے حکم جاری کر دیا گیا ہے۔

سردار سورن سنگھ کی ہلاکت پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھی انتہائی افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ٹوئٹر کی ایک صارف سکینہ قاسم نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ’’پاکستان میں مذہبی اقلیتوں پر حملے کب بند ہوں گے؟‘‘

سابق وزیر اطلاعات و نشریات قمر الزمان کائرہ نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا:

مریم صبیح نے ٹوئٹر پر کہا کہ سورن سنگھ کا دہشت گرد حملے میں ہلاک ہونا افسوسناک امر ہے لیکن انہیں امید ہے کہ مستقبل میں بہت سے سورن سنگھ پیدا ہوں گے۔

سورن سنگھ پاکستان کی چھوٹی سی سکھ اقلیت سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ نہ صرف علاقائی سیاست میں ایک اہم مقام رکھتے تھے بلکہ صوبائی وزیر برائے اقلیت ہونے کے علاوہ وزیر اعلیٰ کے خصوصی مشیر بھی تھے۔

سن 2011 میں پاکستانی دارالحکومت اسلام میں مسیحی اقلیت سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی کو بھی ایک حملے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ مسلم اکثریتی ملک پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک اور پرتشدد واقعات تواتر سے دیکھنے میں آتے ہیں۔