1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسئلہ کشمیر: بھارت اور پاکستان کے مابین سرد جنگ تیز

جاوید اختر، نئی دہلی14 جولائی 2016

کشمیر کے معاملے پر بھارت او رپاکستان کے درمیان سرد جنگ ایک مرتبہ پھر تیز تر ہوگی ہے۔ اس معاملے پر بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے پاکستانی ہائی کمشنر کو طلب کیے جانے کا امکان ہے۔

https://p.dw.com/p/1JOu6
Flagge Pakistan und Indien
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Sharma

بھارتی سکیورٹی فورسز کے ساتھ تصادم میں حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت اور اس کے بعد تشدد کے واقعات میں درجنوں افراد کی اموات سے پیدا شدہ صورت حال پر غور کرنے کے لئے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے کل پندرہ جولائی کو طلب کردہ اجلاس کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کا امکان ہے کہ بھارتی وزارت خارجہ دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کو طلب کرے گی اور ان الزامات کو غلط ثابت کرنے کے لئے کہ برہان وانی کو ’’ماورائے عدالت‘‘ قتل کیا گیا تھا، کے خلاف ثبوت پیش کرے گی۔

وزیر اعظم کے دفتر (پی ایم او) میں وزیر جتیندر سنگھ نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ وہ ’’دہشت گردی سے وابستہ‘‘ ہے ۔ انہوں نے پاکستان کو مشورہ دیا کہ اپنے پڑوسیوں کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنے سے گریز کرے۔

یہا ں سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر پولیس نے وزارت داخلہ کو برہان وانی کے خلاف درج بارہ مقدمات کی تفصیلات بھیج دی ہیں۔ ان تفصیلات کو وزارت خارجہ کو بھیجا جارہا ہے تاکہ جب پاکستانی ہائی کمشنر کو طلب کیا جائے تو یہ ثابت کیا جاسکے کہ برہان وانی ایک کالعدم تنظیم کا لیڈر تھا اور ’’دہشت گردی‘‘ کے متعدد کارروائیوں میں ملوث تھا۔

Indien Unruhen Polizei Verletzter Mann im Krankenhaus
تصویر: Reuters/D.Ismail

برہان وانی کے خلاف جو کیس درج کئے گئے تھے ان میں پولیس سے ہتھیار چھیننے، ان پر فائرنگ کرکے زخمی کردینے، نیم فوجی دستے راشٹریہ رائفل کی ایک گشتی ٹیم پر حملہ کرنے جیسے الزامات شامل ہیں۔ خیال رہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے کشمیر کی صورت حال پر غور و خوض کے لئے طلب کردہ اعلیٰ سطحی میٹنگ کے دوران اس بات پر سخت ناراضگی ظاہر کی تھی کہ میڈیا میں وانی کو ایک ہیرو کی طرح پیش کیا جارہا ہے۔

اس دوران پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ میں کشمیر کا معاملہ اٹھانے پر بھارت نے سخت اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ’’دہشت گردی کو سرکاری پالیسی‘‘ کے طور پر اپنانے والے ملک کو انسانی حقوق کا مسئلہ اٹھانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ بھارت نے پاکستان کو ایک ایسا ملک قرار دیا جو ’’دہشت گردی کو اسٹیٹ پالیسی‘‘ کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ بھارت نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان حقوق انسانی کے نام پر عالمی برادری کو ’’گمراہ کرنے‘‘ کی کوشش کر رہا ہے۔ خیا ل رہے کہ اس سے قبل پاکستانی سفیر ملیحہ لودھی نے برہان وانی کی ہلاکت کو ’’ماورائے عدالت قتل‘‘ اور تشدد کے دوران بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں کشمیریوں کی ہلاکت کو انسانی حقوق کی صریحاﹰ خلاف ورزی قرار دیا تھا۔

Indien Srinagar Zusammenstöße mit der Polizei Kashmir verletzer Mann
تصویر: Reuters/D.Ismail

دوسری جانب بھارتی سول سوسائٹی سے وابستہ کارکنوں کا کہنا ہے کہ بھارت کے رہنماؤں نے کشمیریوں کے مسئلے کو سنجیدگی سے سمجھنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی۔ جواہر لا ل نہرو یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور کے پروفیسر کمل مترا چینائے کا کہنا ہے کہ تشدد کے تازہ واقعات میں اب تک 36 کشمیری ہلاک اور درجنوں زخمی ہوچکے ہیں لیکن آج تک کسی بھی کابینہ کے وزیر نے سری نگر جا کر ریاستی حکومت کی مدد کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ وزیراعظم بھی غیر ملکی دوروں میں مصروف رہے۔ پروفیسر چینائے کا مزید کہنا ہے کہ جب تک کشمیر میں غیر منصفانہ حالات کو منظم اور جامع انداز میں درست نہیں کیا جاتا اس وقت تک کشمیر مستحکم نہیں ہوسکتا۔

سماجی کارکن اور سابقہ یو پی اے حکومت کی طرف سے کشمیر کے لئے سیاسی روڈ میپ تیار کرنے والی تین رکنی کمیٹی کی ایک رکن رادھا کمار کے خیال میں اس وقت کم از کم تین کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مسٹر مودی کشمیریوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لئے دل کی گہرائیوں سے ایک بیان دیں، اس کے بعد ریاست کی مخلوط حکومت کم از کم مشترکہ پروگرام پر عمل کرے اور تیسرا کشمیر کے مسئلے کے حل کے لئے تمام فریقین کے درمیان نمایاں، قریبی اور واضح تعاون ہو۔ رادھا کمار کہتی ہیں کہ ہو سکتا ہے پاکستان میں موجود بعض گروپوں کو ایسے اقدامات راس نہ آئیں لیکن اگر بھارت کی حکومت اپنی کوشش جاری رکھے تو مخالف قوتیں دھیرے دھیرے کمزور پڑ جائیں گی۔
کشمیری امور کے ماہر ہیپی مون جیکب کہتے ہیں، ’’ ہمیں ملک میں ہر مشکل وقت میں دوسروں کی طرف انگلیاں اٹھانے کی اپنی قومی عادت ترک کرنی ہوگی اور اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت اور بھارت کے لوگ کشمیریوں سے کھلے ذہن و دما غ اور کسی تعصب کے بغیر بات کریں۔ لیکن یہ بات چیت چیخ چیخ کر اپنی بات کہنے والے ٹی وی اینکروں کے ذریعے نہیں ہونی چاہئے، جن کی تاریخ اور سیاست سے لاعلمی اور بنیادی شرافت کے فقدان کی وجہ سے ہماری اکثر سبکی ہوتی ہے۔‘‘