1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسترد درخواست گزاروں کی اپیلیں، وجہ غلط فیصلے؟

شمشیر حیدر
19 ستمبر 2017

وفاقی جرمن حکومت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس برس کے پہلے چھ ماہ کے دوران دو لاکھ اسی ہزار سے زائد تارکین وطن نے پناہ کی درخواستیں مسترد کیے جانے کے خلاف جرمن عدالتوں میں اپیلیں کر رکھی ہیں۔

https://p.dw.com/p/2kIpR
Deutschland Flüchtlinge Protest gegen Abschiebung
تصویر: Getty Images/S. Gallup

تارکین وطن کی اپیلوں سے متعلق یہ اعداد و شمار جرمن پارلیمان میں بائیں بازو کی سیاسی جماعت ’لِنکے‘ کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وفاقی حکومت نے جاری کیے ہیں۔ ان اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کی پہلی ششماہی میں دو لاکھ اسی ہزار سے زائد تارکین وطن نے پناہ کی درخواستیں مسترد کر دیے جانے کے فیصلوں کے خلاف عدالتوں سے رجوع کیا۔

یونان: 14 مغوی پاکستانی تارکین وطن رہا کرا لیے گئے

انتظامی عدالتوں سے رجوع کرنے والے پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی یہ تعداد گزشتہ برس کے اسی دورانیے کی نسبت قریب دو گنا بنتی ہے۔ پچھلے برس کے پہلے چھ ماہ کے دوران ایک لاکھ چون ہزار تارکین وطن نے پناہ کی درخواستیں مسترد کیے جانے کے خلاف اپیلیں درج کرائی تھیں۔

بی اے ایم ایف کے مطابق پناہ کی مسترد درخواستوں کے خلاف جمع کرائی گئی اپیلوں میں تناسب کے اعتبار سے سب سے زیادہ اپیلیں پاکستانی تارکین وطن کی جانب سے جمع کرائی گئی ہیں۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی اپیلوں کی شرح 53 فیصد سے بھی زائد ہے۔ جب کہ افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن اس حوالے سے چتھیس فیصد شرح کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔

تاہم تعداد کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اس برس اڑتیس ہزار افغان تارکین وطن جب کہ قریب بیس ہزار شامی مہاجرین نے پناہ کی درخواستیں رد کیے جانے کے خلاف جرمن انتظامی عدالتوں میں اپیلیں جمع کرائی ہیں۔

اس صورت حال میں اب انتظامی عدالتوں پر بوجھ میں شدید اضافہ ہو چکا ہے۔ دو ماہ قبل ہی جرمنی میں انتظامی عدالتوں کے ججوں کی وفاقی تنظیم کے سربراہ روبرٹ زیگ میولر نے بھی اس صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

جرمنی میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم GfbV نامی ایک تنظیم کی ڈائریکٹر اُلرش ڈیلیوس کا کہنا ہے کہ بی اے ایم ایف کے اہلکار پناہ کی درخواستوں پر درست فیصلے کرنے کی صلاحیت اور مختلف ممالک کے زمینی حقائق کے بارے میں معلومات نہیں رکھتے۔ ڈیلیوس کے مطابق، ’’جب ایتھوپیا کے اورومو، پاکستان کے بلوچ تارکین وطن اور ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افغان شہریوں کی پناہ کی درخواستوں پر فیصلہ کرتے ہوئے بی اے ایم ایف کے اہلکاروں کی طرف سے قانونی وجوہات کے طور پر ایک ہی طرح کی عبارت استعمال کی جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دفتر کے حکام نے پناہ کی ہر درخواست پر انفرادی جائزوں کے بعد فیصلے کرنے کی اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی۔‘‘

یوں مختلف تارکین وطن کی درخواستیں ایک ہی انداز میں مسترد کیے جانے کے بعد مسترد درخواست گزاروں کی تعداد تو بڑھی ہے لیکن اسی تناسب سے اپیلوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔

انتظامی عدالتوں کی جانب سے اپیلیں نمٹانے کی رفتار میں اضافہ تو ضرور ہوا ہے مگر اب بھی اپیلوں کی بڑی تعداد پر فیصلے کرنا باقی ہیں۔ رواں برس کی پہلی ششماہی کے دوران اڑتیس ہزار سے زائد اپیلیں نمٹائی گئیں جب کہ پچھلے پورے برس کے دوران اکہتر ہزار تارکین وطن کی اپیلوں پر فیصلے کیے جا سکے تھے۔

’یورپ کی جانب قانونی ہجرت کا راستہ کھولنا چاہیے‘

’افغان مہاجر جرمنی کے کارآمد شہری بن سکتے ہيں‘