1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسترد شدہ مہاجرین کی ملک بدری میں تیزی لائی جائے گی، میرکل

15 اکتوبر 2016

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ ایسے مہاجرین کی ملک بدری کی خاطر قومی سطح پر کوشش کی ضرورت ہو گی، جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد کی جا چکی ہیں۔ مہاجرین کے بحران پر حکومتی پالیسی پر میرکل سخت دباؤ میں ہیں۔

https://p.dw.com/p/2RGco
Deutschland Merkel auf dem Deutschlandtag der Jungen Union
تصویر: picture alliance/dpa/G. Kirchner

خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے حوالے سے بتایا ہے کہ جرمنی میں موجود ایسے مہاجرین جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں، ان کے جرمنی بدر کرنے کی خاطر قومی سطح پر کوشش کرنا ہو گی۔

مہاجرت کے اقتصادی عوامل کا سدباب ضروری ہے، میرکل
مہاجرین سے متعلق پالیسی: میرکل اور یورپی رہنماؤں کی ملاقات

میرکل نے مہاجر پالیسی نہ بدلی تو الحاق ختم کر دیں گے، سی ایس یو

چانسلر میرکل نے ہفتے کی شب پاڈربورن شہر میں اپنی سیاسی پارٹی کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے یوتھ ونگ بلاک سے خطاب میں کہا کہ سیاسی پناہ کے ایسے متلاشی افراد کو ان کے آبائی ممالک روانہ کرنے کی کوششیں جاری ہے، جن کی درخواستیں رد ہو چکی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی حکومت اس تناظر میں جانفشانی کے ساتھ کام کر رہی ہے۔

رواں برس جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کی تعداد میں نمایاں کمی نوٹ کی گئی ہے۔ گزشتہ برس جرمنی آنے والے ایسے افراد کی تعداد آٹھ لاکھ نوے ہزار تھی جبکہ اس برس کے پہلے نو ماہ کے دوران یہ تعداد دو لاکھ تیرہ ہزار ریکارڈ کی گئی ہے۔

جرمن چانسلر کے اس تازہ بیان سے قبل بھی حکومتی عہدیدار اس امر کا اظہار کر چکے ہیں کہ مسترد شدہ مہاجرین اور تارکین وطن کو ان کے ممالک واپس بھیجنے کی خاطر بڑے پیمانے پر کوشش کی ضرورت ہے۔

رواں برس جنوری تا ستمبر ساٹھ ہزار ایسے مہاجرین اپنے اپنے ممالک واپس جا چکے ہیں یا انہیں جرمنی بدر کیا جا چکا ہے، جن کی پناہ کی درخواستیں رد ہو چکی ہیں۔

انگیلا میرکل کو مہاجرین کی پالیسی پر نہ صرف اپوزیشن بلکہ عوامی سطح کے علاوہ اپنی قدامت پسند سیاسی اتحاد میں بھی دباؤ کا سامنا ہے۔ اسی معاملے پر ان کی مقبولیت میں بھی کمی واقع ہو چکی ہے۔ اس صورتحال میں میرکل نے کہا کہ جرمنی میں مسترد شدہ مہاجرین کی ملک بدری کے کام میں مزید تیزی لانا چاہیے تاکہ ووٹرز کو معلوم ہو سکے کہ حکومت ان کے تحفظات کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔

Serbien Kelebija Fotoreportage Diego Cupolo an ungarischer Grenze
رواں برس جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کی تعداد میں نمایاں کمی نوٹ کی گئی ہے۔تصویر: DW/D. Cupolo

گزشتہ برس یورپ میں پھنسے مہاجرین کے لیے جرمنی کی سرحدیں کھولنے کے فیصلے پر میرکل کو عالمی میڈیا میں کافی زیادہ پذیرائی ملی تھی۔ سن 2015 میں اسی حکومتی پالیسی کے باعث نو لاکھ مہاجرین جرمنی داخل ہونے میں کامیاب ہوئے تھے۔

تاہم انتظامی امور اور افسر شاہی کی رکاوٹوں کی وجہ سے ان مہاجرین کو جرمنی میں آباد کرنے کے حوالے سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ساتھ ہی یورپ اور جرمنی میں کچھ دہشت گردانہ حملوں کے باعث عوام میں بھی مہاجرین سے خوف نمایاں ہوا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ گزشتہ برس جرمن عوام نے بھی مہاجرین کا کھلے دل سے استقبال کیا تھا۔

سیاسی منظر نامے پر دائیں بازو کی مہاجرت مخالف سیاسی جماعت اے ایف ڈی نے اس معاملے میں میرکل پر کھلے عام تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اسی باعث اس پارٹی کی عوامی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔ اے ایف ڈی حالیہ ریاستی انتخابات میں خاطر خواہ کامیابیاں حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہی ہے۔