1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسلمان، مساجد اور مینار جرمنی کا حصہ ہیں، بشپ بوڈے

مقبول ملک21 مئی 2016

جرمنی میں اسلام اور مساجد کی تعمیر سے متعلق جاری متنازعہ بحث میں اوسنابروک کے بشپ بوڈے نے کہا ہے کہ جرمنی میں آباد مسلمان مقامی معاشرے کا حصہ ہیں اور جب وہ مساجد تعمیر کریں گے تو مینار بھی ان عبادت گاہوں کا حصہ ہوں گے۔

https://p.dw.com/p/1IsIc
Deutschland Zentralmoschee Köln Ehrenfeld
کولون میں مسلمانوں کی کچھ عرصہ قبل تعمیر کردہ مرکزی مسجدتصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg

وفاقی دارالحکومت برلن سے ہفتہ اکیس مئی کے روز موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق بشپ آف اوسنابروک فرانس یوزیف بوڈے نے واضح طور پر اعتراف کیا کہ مسلمان اور ان کی مساجد کے مینار آج کے جرمنی کا حصہ ہیں، جن سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

01.03.2013 DW DEUTSCHLAND HEUTE Minarett
تصویر: DW

جرمن روزنامے ’نوئے اوسنابروکر سائٹنگ‘ میں آج شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں بشپ بوڈے نے کہا، ’’مساجد کی تعمیر کے وقت میناروں کی تعمیر بھی ان کا حصہ ہوتی ہے۔ مسجدوں کی تعمیر کا ان کے میناروں کی تعمیر سے وہی تعلق ہے جو کسی کلیسا کی تعمیر کا کلیسائی مینار کی تعمیر سے ہوتا ہے۔‘‘

اس انٹرویو میں اوسنابروک کے کیتھولک بشپ نے یہ امید بھی ظاہر کی کہ مستقبل میں جرمن معاشرے میں مسلمان تارکین وطن کے سماجی انضمام کے عمل میں مزید بہتری دیکھنے میں آئے گی۔ انہوں نے کہا، ’’بچوں اور خاندانوں سے متعلق اپنے دوستانہ رویوں میں ہر کسی کو مزید بالغ نظری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔‘‘

ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ جرمنی میں کیتھولک کلیسا کی اہم ترین مذہبی شخصیات میں سے ایک بشپ بوڈے کے مطابق، ’’کسی کو یہ اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ اسلام کی ساکھ کو منفی بنا کر پیش کرے، جیسا کہ تارکین وطن اور اسلام کی مخالف دائیں بازو کی عوامیت پسند سیاسی جماعت ’متبادل برائے جرمنی‘ یا اے ایف ڈی کی طرف سے کیا جا رہا ہے۔‘‘

Bischof Franz-Josef Bode
جرمن شہر اوسنابروک کے کیتھولک بشپ بوڈےتصویر: picture-alliance/dpa

اسی انٹرویو میں اس کیتھولک کلیسائی رہنما نے مزید کہا کہ اس امر کی ’کوئی وجہ موجود نہیں کہ ایک مذہب کے طور پر اسلام سے خوف کھایا جائے‘۔ انہوں نے اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’’ذاتی طور پر مجھے صرف اس اسلام سے خوف آتا ہے، جس میں بنیاد پرست عناصر انتہا پسندانہ طریقے سے قرآن کی تشریح کرتے ہیں اور جو چاہتے ہیں کہ ’ان کا اسلام‘ دیگر مذاہب پر غالب آتے ہوئے انہیں خود میں شامل کر لے۔‘‘

بشپ بوڈے نے اس بات کی بھی وکالت کی کہ جرمنی کے سیکولر معاشرے میں مذہب اور ثقافت کے طور پر اسلام کے بارے میں زیادہ ٹھوس اور جامع بحث مباحثہ کیا جانا چاہیے تاکہ جرمن معاشرے کی اکثریتی آبادی میں اسلام کی تفہیم میں گہرائی لائی جا سکے۔‘‘

اس سوال کے جواب میں کہ آیا اگلے 20 برسوں میں جرمنی میں کلیسا خالی ہو جائیں گے اور ملکی آبادی میں مسلمانوں کی اکثریت ہو جائے گی، فرانس یوزیف بوڈے نے کہا، ’’حقائق کی بنیاد پر مجھے ایسی کوئی توقع نہیں کہ آئندہ برسوں میں جرمنی میں مسلمانوں کی آبادی میں کسی دھماکے کی طرح کوئی یکدم اور بہت بڑا اضافہ ہو جائے گا۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں