1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسیحی نوجوان کی ہلاکت، سیالکوٹ جیل حکام کے خلاف مقدمہ درج

16 ستمبر 2009

سیالکوٹ جیل حکام کے خلاف منگل کے روز ایک مسیحی نوجوان کی حراست کے دوران پولیس کے مبینہ تشدد سے ہلاکت پر آج بدھ کے روز ایک مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/JiIC
تصویر: AP

یہ مقدمہ رابرٹ عرف فانیش مسیح کے والد کی طرف سے دی گئی تحریر ی درخواست پر تھانہ سول لائن سیالکوٹ میں درج کیا گیا۔ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 319 کے تحت درج کئے جانے والے اس مقدمے میں جیل کے سپر ینٹنڈنٹ اور ڈپٹی سپرینٹنڈنٹ جیل سمیت کئی جیل ملازمین کو نامزد کیا گیا ہے۔ قتل ِ خطا کے حوالے سے جانی جانے والی یہ دفعہ ان لوگوں پر لگائی جاتی ہے جن کی غفلت یا لا پروائی کی وجہ سے کوئی شخص ہلاک ہو جائے۔

Proteste gegen Attacken auf Pakistani Christen Punjab
پاکستان میں مسیحی برادری پر انتہاپسند عناصر اکثر توہینِ رسالت کے الزامات لگاکر حملے کرتے ہیںتصویر: AP

رابرٹ مسیح کو منگل کے روز سیالکوٹ جیل میں مردہ حالت میں پایا گیا تھا ۔جیل حکام کے مطابق قرآن کی توہین کے مبینہ الزام کے تحت گرفتار کئے جانے والے مسیحی نوجوان رابرٹ کو جیل کے ایک علیحدہ سیل میں رکھا گیا تھا جہاں اس نے خودکشی کر لی۔

ادھر انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چئیرپرسن عاصمہ جہانگیر نے الزام لگایا ہے کہ اس مسیحی نوجوان کی جسم پر تشدد کے نشان تھے اور اسے قتل کیا گیا ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ رابرٹ مسیح پر ایک مسلمان خاتون سے چھیڑ خوانی اور قرآنِ پاک کی مبینہ بے حرمتی کے الزامات عائد کئے گئے تھے۔

سمبڑیال کے نواحی گاﺅں ’’جےٹھی کے‘‘ میں کچھ دن پہلے چند مشتعل مسلمانوں نے ایک گرجا گھر نذر آتش کر دیا تھا۔ اس علاقے کے بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس واقعے سے وہاں کے مسلمان اور مسیحی رہائشیوں کے مابین کشیدگی میں اس وقت اضافہ ہو گیا جب ایک مسیحی نوجوان رابرٹ نے مدرسے سے لوٹنے والی ایک نوجوان مسلمان لڑکی سے مبینہ طور پر چھیڑ خانی کی اور اس کے سپارے کی مبینہ طور پر بے حرمتی کی۔ اس مسیحی نوجوان کے خلاف مقدمہ درج ہو جانے کے بعد اسے جسمانی ریمانڈ پر سیالکوٹ جیل بھیجا گیا تھا جہاں منگل کے روز اسے جیل میں مردہ پایا گیا ۔

مقامی مسیحی رہنما جوزف فرانسس نے بدھ کے روز لاہور میں صحافیوں کو بتایا کہ ایسے واقعات سے متاثرہ مسیحی لوگ اپنا گاﺅں چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ان کے مطابق پنجاب میں اقلیتوں کے خلاف ایسے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اقلیتوں پر مظالم ڈھانے والے عناصر کے خلاف موثر کاروائی کرنے میں نا کام دکھائی دے رہی ہے۔

لیبر پارٹی پاکستان کے مرکزی رہنما فاروق طارق کے مطابق سیالکوٹ اور اس کے نواحی علاقوں میں رابرٹ کی موت کے بعد حالات ابھی تک کشیدہ ہیں اور اس واقعے نے اقلیتوں کو عدم تحفظ کی کیفیت سے دو چار کر دیا ہے۔ مقتول مسیحی نوجوان کی آخری رسومات بدھ کی صبح سیالکوٹ کے کرسچن میموریل سکول میں ادا کی گئیں۔

رابرٹ کی میموریل سروس کے بعد کچھ لوگوں نے مقامی سڑک بلاک کر دی اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ مشتعل مظاہرین کو منتشر کر نے کے لئے پولیس نے لاٹھی چارج بھی کیا۔ اس موقعے پر چند افراد کو گرفتار بھی کیا گیا، جنہیں بعد میں رہا کر دیا گیا۔

مسیحی نوجوان کے والد ریاست مسیح نے پنجاب کے صوبائی وزیر برائے اقلیتی امور کامران مائیکل کے ہمراہ ایک پریس کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ ان کے بیٹے کی لاش پر سیاست کرنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ان کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ رابرٹ کے قاتلوں کے خلاف فوری قانونی کاروائی کی جائے۔

سیالکوٹ جیل کے ملازمین نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ اس مسیحی نوجوان کے مبینہ طور پر ہوئی ہلاکت میں ملوث نہیں ہیں۔ ان کا اصرار تھا کہ مسیحی نوجوان نے خود کشی کی ہے۔ پنجاب حکومت نے مسیحی نوجوان کی ہلاکت اور چرچ کو نذر آتش کئے جانے کے واقعات کے خلاف اعلیٰ سطحی تحقیقات کے احکامات جاری کئے ہیں۔

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ادارت: انعام حسن