1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرقی حلب سے لوگوں کی منتقلی جاری يا نہيں؟

عاصم سلیم
19 دسمبر 2016

سيريئن آبزرويٹری کے مطابق گزشتہ روز شامی شہر ادلب کے قريب واقع شيعہ اکثريت والے محصور ديہاتوں الفوعہ اور کفریا سے دس بسيں باغيوں کے زير قبضہ علاقوں سے حلب کی طرف روانہ ہوئيں۔ ان بسوں میں کئی سو افراد سوار ہیں۔

https://p.dw.com/p/2UWFW
Syrien Evakuierung in Aleppo
تصویر: picture-alliance/AA/E. Eymen

شامی حکومت نے دعویٰ کيا ہے کہ مشرقی حلب سے لوگوں کی منتقلی کا عمل تعطّل کا شکار ہے۔ تاہم ايسی رپورٹيں بھی ہيں کہ يہ عمل جاری ہے اور اتوار و پير کی درميانی شب چار سو سے زائد افراد کو وہاں سے منتقل کر ديا گيا ہے۔ ان خبروں کی تصديق اقوام متحدہ کے ذرائع اور آزاد مانيٹرنگ گروپوں نے کی ہے۔

اقوام متحدہ ميں شام کے ليے مالی امداد سے متعلق امور کے نگران يان ايگلانڈ نے اتوار کی شب بتايا کہ شيعہ اکثريت والے ان ديہاتوں سے لوگوں کو منتقل کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے تاہم اب بھی ہزاروں افراد مدد اور وہاں سے منتقلی کے منتظر ہيں۔ حلب ميں باغيوں کے زير قبضہ بچ جانے والے چند ايک علاقوں ميں ہزاروں افراد مدد کے منتظر ہيں۔ يہ وہ لوگ ہيں جو حاليہ کارروائيوں کے نتيجے ميں اپنے گھر بار سے محروم ہو چکے ہيں۔

دريں اثناء اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ميں آج ايک قرارداد کا مسودہ پيش کيا جا رہا ہے، جس کی ممکنہ منظوری کی صورت ميں حلب سے لوگوں کی محفوظ مقامات پر منتقلی کے عمل کی نگرانی عالمی ادارے کے مبصرين کريں گے۔

شامی فوج نے اپنے اتحاديوں کی مدد سے چوبيس نومبر سے مشرقی حلب ميں کئی مقامات پر پيش قدمی کی ہے۔ يہ مقامات قبل ازيں صدر بشار الاسد کے خلاف برسرپيکار باغيوں کے کنٹرول ميں تھے۔

شامی خانہ جنگی اعدادوشمار میں

 

مارچ سن 2011 ميں خانہ جنگی کے آغاز سے قبل حلب، شام کا سب سے بڑا شہر تھا اور اسی ليے شہر ميں سرکاری دستوں کی پيش قدمی، باغيوں کے ليے ايک دھچکہ اور حکومت کے ليے کافی اہم کاميابی کی حيثيت رکھتی ہے۔