1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرقی یروشلم میں یہودی بستیوں کی تعمیر، اسرائیل پر تنقید

23 جولائی 2009

اسرائیل کو مشرقی یروشلم کی یہودی بستیوں میں نئی لیکن متنازعہ تعمیرات کی وجہ سے بڑھتی ہوئی تنقید کا سامنا ہے۔ حال ہی میں امریکہ نے ایک بار پھر مطالبہ کیا کہ اسرائیل یہودی بستیوں میں توسیع روک دے۔

https://p.dw.com/p/IvcT
تصویر: picture-alliance/ dpa

اس امریکی مطالبے کے ایک روز بعد یورپی یونین اور روس نے بھی یہی مطالبہ کردیا۔ لیکن اسرائیلی حکومت اس مسلسل تنقید کو رد کرتے ہوئے بار بار مشرقی یروشلم پر اپنی عملداری کا ذکرکرتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ اسرائیل کو اپنے دیرینہ اتحادیوں سے محروم ہوجانے کا خطرہ ہے۔

Obama Gesandter George Mitchell trifft Peres
مشرق وسطیٰ کے لئے امریکی مندوب جارج مچل اسرائیلی صدر شمعون پیرز کے ساتھتصویر: picture-alliance/ dpa

اسرائیل اپنے بہترین دوستوں سے محروم ہوتا جارہا ہے۔ مثلا امریکی صدر اوباما، جو خطے میں قیام امن کے لئے فلسطینیوں کے ساتھ بات چیت سنجیدگی سے آگے بڑھانا چاہتے ہیں، کئی بار مطالبے کرچکے ہیں کہ اسرائیل مغربی اردن کے علاقے اور مشرقی یروشلم میں یہودی بستیوں کی تعمیر فوری طور پر روک دے۔

لیکن بین یامین نیتن یاہو کی قیادت میں اسرائیلی حکومت فلسطینی علاقوں میں تعمیرات جاری رکھے ہوئے ہے، اور مزید علاقوں پر قبضہ کر کے انہیں ان بستیوں میں شامل کرتی جارہی ہے۔

اسرائیل نے امریکہ کو مطمئن کرنے کے لئے چند بستیوں میں ایسی جگہیں خالی کر دیں جو ویسے بھی غیر قانونی طور پر قبضے میں لی گئی تھیں۔ لیکن یہودی بستیوں میں آبادکاروں کی تعداد مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔

Bulldozer in Jerusalem
اسرائیلی بلڈوزر مشرقی یروشلم میں میں ایک گھر کو منہدم کر نے میں مصروف، فائل فوٹوتصویر: AP

1967 میں اسرائیلی قبضے میں لئے گئے مغربی اردن کے علاقے اور مشرقی یروشلم میں آج تقریبا پانچ لاکھ یہودی آباد ہیں۔ نیتن یاہو اردن کے مغربی علاقے کو یُوڈئیا اور ساماریا کا نام دیتے ہیں اور اس خطے کو ایسا یہودی تشخص دینے کے خواہش مند ہیں، جس کے تحت فلسطینیوں کو وہاں دوسرے درجے کے شہریوں کے طور پر برداشت کیا جائے گا۔

ایک ماہ قبل فلسطینیوں کی اپنی ایک علیحدہ ریاست کے قیام پر اپنی مشروط رضا مندی کے اظہار کے بعد بھی نیتن یاہو کا اصلی ہدف ابھی بھی اس عظیم تر اسرائیل کا قیام ہے، جو بحیرہ روم سے لے کر اردن تک پھیلا ہوا ہو۔

اسرائیلی وزیر اعظم امریکہ کو اشارہ دے چکے ہیں کہ وہ مشرقی یروشلم کی یہودی بستیوں میں نئے گھروں کی تعمیر کے اپنے متنازعہ منصوبے پر کاربند رہیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہودیوں کو لازمی طور پر یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ یروشلم میں جہاں چاہیں رہیں اور اپنے مکانات تعمیر کریں۔

لیکن جو کوئی بھی ماضی اور حال کے حقائق کو اس طرح مسخ کرے گا، اگر اس کے بہترین دوست بھی اس سے منہہ موڑنے لگیں تو اسے حیران نہیں ہونا چاہیے۔ ابھی حال ہی میں جرمن وزیر خارجہ شٹائن مائر کے ساتھ بات چیت میں یہودی بستیوں کی بات ہوئی، تو نیتن یاہو نے کہا: "یُوڈئیا اور ساماریا یہودیوں سے پاک نہیں ہو سکتے۔" یہ کہہ کر نیتن یاہو نے جرمن مہمان کو حیران کر دیا۔ انہوں نے بالواسطہ طور پر جرمن وزیر پر الزام لگایا کہ یہودی بستیوں میں توسیع کے خ‍اتمے کا مطالبہ جیسے نازیوں کی سیاست ہو۔

وزیر اعظم نیتن یاہو نے اگر یہ سیاست جاری رکھی، تو اسرائیل کے دوست کم ہوتے جائیں گے۔ ان کا طرز عمل نہ بدلا تو اسرائیل بین الاقوامی برادری میں مسلسل الگ تھلگ ہوتا جائے گا۔

اسی تناظر میں جرمن پارلیمان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ رُپریشت پولینس نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر اسرائیل نے فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر جاری رکھی تو یہ خطرہ پیدا ہو جائے گا کہ ایک "جمہوری ریاست کے طور پر اسرائیل بتدریج خود کشی" کرنے لگے۔

رپورٹ: سیباستیان اَینگل بریشت / مقبول ملک

ادارت: عدنان اسحاق