1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرق وسطی میں ایک سال امن قائم کرنے کا عزم

3 ستمبر 2010

اسرائیل اور فلسطینی انتظامیہ کے مابین ہونے والے مذاکرات پر عالمی برادری کی جانب سے ملا جلا رد عمل سامنے آیا ہے۔ فریقین نے امن عمل کا باقاعدگی سے جائزہ لینے اور ایک سال کے دوران مشرقی وسطی تنازعے کو حل کرنے کا عزم کیا۔

https://p.dw.com/p/P3tH
تصویر: picture-alliance/dpa

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ وہ ہر دو ہفتوں بعد امن عمل میں ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لینے کے لئے ملاقات کیاکریں گے۔ دونوں رہنماؤں نے ایک سال کے دوران ہی مشرق وسطی تنازعے کا حل تلاش کرنے کا اعادہ بھی کیا۔ براہ راست مذاکرات شروع کرنے سے قبل اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو اور فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس کی امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اور مشرق وسطی کے لئے خصوصی امریکی مندوب چارج مچل سے ملاقاتیں ہوئیں۔ بیس ماہ بعد براہ راست ہونے والے ان مذاکرات کا نتیجہ یہ نکلا کہ فریقین نے اس ماہ کی 14 اور تاریخ 15کو ایک مرتبہ پھر بات چیت کرنے کا اعلان کیا ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ صرف مل کر ہی ہم اس تنازعے کو ختم کرتے ہوئے ایک تاریخی فیصلے تک پہنچ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا ’’اصل اور دیرپا امن صرف باہمی کوششوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ فریقین کو اس عمل میں اپنے موقف میں لچک لانا ہوگی۔ اسرائیلی عوام اور وزیراعظم اس راستے پر چلنے کے لئے تیار ہیں۔ تاکہ اپنے عوام اور اپنے پڑوسیوں کو تحفظ اور خوشحالی دی جا سکے۔‘‘نیتن یاہو نے مزید کہا کہ انہیں فلسطینی عوام کی خواہشات کا بخوبی اندازہ ہے۔ وہ ان کے خودمختاری کے مطالبے کو سمجھتے بھی ہیں۔ نیتن یاہوکے بقول انہیں یقین ہے کہ اس مطالبے کو اسرائیل کی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے مصالحت سے پورا کیا جا سکتا ہے۔ اس ملاقات میں یہ طے ہوا کہ اس وقت امن عمل کے بنیادی ڈھانچے کے خد و خال کو واضح کرنا بھی ضروری ہے۔

Flash-Galerie Nahost Friedensgespräche in Washington
اسرائیلی وزیراعظم اور فلسطینی انتظامیہ کے صدرکی امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اور مشرق وسطی کے لئے خصوصی امریکی مندوب چارج مچل سے ملاقاتیں ہوئیںتصویر: AP

فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس نے ایک بار پھر اسرائیلی وزیراعظم پر واضح کیا کہ غزہ پٹی کی ناکہ بندی کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔ بات چیت کے آغاز پر امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا کہ اس سے قبل بات چیت کے کئی سلسلے ناکام ہو چکے ہیں لیکن انہیں یقین ہے کہ بات چیت کی یہ کوشش ضرور کامیاب ہوگی۔ امریکی صدر باراک اوباما نے بھی دو ریاستی فارمولے کے حوالے سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیاکہ وہ کسی امن ڈیل کو ایک سال کے اندر اندر مکمل ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ فلسطینی مذاکرات کار صائب عُریقات’Sajeb Erekat‘ کا کہنا ہو کہ ایک سال میں تنازعے کو حل تو کیا جا سکتا ہے تاہم اس کے لئے ضروی ہے کہ اسرائیل یہودی بستیوں کی تعمیر کا منصوبہ روک دے۔ ان کے بقول ’’ میرےخیال میں اب یہ واضح ہو چکا ہے اور ہمیں امید بھی ہےکہ اسرائیل کو بستیوں کی تعمیر اور امن میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا تو وہ امن کو ہی فوقیت دے گا۔ اگر اسرائیل نے اپنے تعمیراتی منصوبوں کو جاری رکھا تو اس کا مطلب ہو گا کہ انہوں نے ہم پر اپنے دروازے بند کر دیئے ہیں۔‘‘

رپورٹ: عدنان اسحاق

ادارت: افسر اعوان