1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشکل سوالات کا انضمام سے کیا کوئی تعلق ہے؟

عدنان اسحاق 20 جولائی 2016

ڈنمارک کی شہریت حاصل کرنے کے لیے بنائے گئے قوانین کو مزید سخت سے سخت تر بنایا جا رہا ہے۔ اب کچھ ایسے سوال بھی پوچھے جا رہے ہیں کہ جن کو پڑھ کر گمان ہوتا ہے کہ شاید آپ کسی مقابلے کے امتحان دے رہے ہوں۔

https://p.dw.com/p/1JSgy
تصویر: Reuters/F. Bimmer

ڈنمارک کی وزیر داخلہ انگر اسٹوژبرگ گزشتہ مہینوں کے دوران ڈنمارک میں داخل ہونے اور شہریت کے قوانین میں کئی مرتبہ اصلاحات متعارف کرا چکی ہیں۔ ان کے بقول، ’’زیادہ تر لوگ اس امتحان میں اس لیے فیل ہو جاتے ہیں کہ وہ تیاری نہیں کرتے اور وہ چالیس سوالوں کے حوالے سے دستیاب مواد کو ٹھیک سے نہیں پڑھتے۔‘‘ وہ بتاتی ہیں کہ غیر ملکیوں سے گود لینے، ٹیکسوں کی ادائیگی، منتخب شدہ رکن پارلیمان، ملکہ کی سیاسی معاملات میں مداخلت اور سرحد پر نگرانی جیسے موضوعات کے بارے میں پوچھا جاتا ہے۔ غیر ملکیوں سے دوسروں کے مذہبی عقائد کا احترام کرنے کے لیے بھی کہا جاتا ہے جبکہ ڈنمارک کی سرزمین پر لڑی جانے والے جنگوں اور دیگر تاریخی واقعات کے بارے میں کچھ سوال شامل ہیں۔

Schweden Dänemark Grenze Flüchtlinge
تصویر: Getty Images/AFP/J. Nilsson

حکام بتاتے ہیں کہ ان سوالات کا مقصد یہ ہے کہ غیر ملکیوں کو ڈنمارک کے معاشرے کو سمجھنے میں آسانی ہو اور انضمام میں دشواریاں نہ آئیں۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ ان میں سے کچھ ایسے سوالات بھی ہیں، جن کا انضمام سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ مثال کے طور پر ایک سوال 1968ء کی دہائی میں نمائش کے لیے پیش کی جانے والی معروف ترین ڈینش فلم ’Olsen Gang‘ کے بارے میں بھی ہے، جس میں غیر ملکیوں سے امید کی گئی ہے کہ انہیں اس بارے میں علم ہو۔ اس فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے والے مورٹن گرون والڈ کے مطابق وہ بھی اس فلم کی ریلیز کی تاریخ بھول چکے ہیں۔

ڈنمارک میں گزشتہ چوالیس برسوں سے مقیم ایک فرانسیسی شہری لُک ڈے وزما نے کہا کہ انہیں ایسا لگتا ہے کہ کوپن ہیگن حکومت ایسے قوانین کی مدد سے چاہتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ مہاجرین ڈنمارک کا رخ نہ کریں۔ تاہم انہوں نے بھی تسلیم کیا کہ اس سوالنامے میں شامل چالیس سوالوں میں سے انہیں صرف آٹھ کے جوابات کا علم ہے۔ یہ امتحان مہاجرین کے لیے ایک جوے کی طرح ہے اگر اتفاق سے وہ صحیح جوابات پر نشان لگا پائے تو پاس ورنہ فیل۔ ان میں سے اکثر مہاجرین اپنے آبائی ممالک میں اسکول بھی نہیں گئے جبکہ بہت سوں کو تو کوئی دوسری زبان بھی نہیں آتی۔ بہت سے ڈینش شہری بھی ان چالیس سے صرف بتیس کے صحیح جوابات دے پائے۔