1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مصرمیں عوامی انقلاب، بھارت تشویش اور امیدوں کے درمیان

2 فروری 2011

مصر میں صدر مبارک کے خلاف عوامی بغاوت اور مشرق وسطی کے دیگر ملکوں میں اپنی حکومتوں کے خلاف عوامی احتجاج پر بھارت قریبی نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ نئی دہلی حکام جائزہ لے رہے ہیں کہ بغاوت کہیں اس کی سرحدوں تک نہ پہنچ جائے۔

https://p.dw.com/p/1093O
مصر اور بھارت کے قدیم ثقافتی اور سیاسی رشتے ہیںتصویر: AP

مصرمیں آئے اکیسویں صدی کے دنیا کے اب تک کے اس سب سے بڑے عوامی انقلاب پردیگر ملکوں کی طرح بھارت بھی گہری نگاہیں رکھے ہوئے ہے۔ حالانکہ بھارت نے اس پر بہت محتاط ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے۔

بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا نے کہا کہ ” گوکہ یہ مصر کا داخلی معاملہ ہے تاہم حکومت اس پر قریبی نگاہ رکھے ہوئے ہے“۔ حکومت نے مصر میں جمہوری اصلاحات کی حمایت کی ہے۔ دوسری طرف بائیں بازو کی جماعتوں نے عوامی بغاوت کا خیرمقدم کرتے ہوئے امریکہ سے کہا ہے کہ وہ مصر کے داخلی معاملات میں مداخلت سے گریز کرے۔

یوں تو مصر اور بھارت میں سینکٹروں میل کا فاصلہ ہے تاہم دونوں میں قریب قدیم ثقافتی اور سیاسی رشتے ہیں۔ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں دونوں ملکوں نے مل کر غیروابستہ تحریک کو بلندیوں تک پہنچایا تھا۔ اس لئے مصر میں آنے والے اس عوامی انقلاب پر یہاں مختلف حلقوں کی طرف سے گہری نگاہ رکھی جارہی ہے اور اس کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا جارہا ہے۔

Das indische Parlament in Neu Dehli
بھارت میں مختلف سماجی، سیاسی اور طلبہ تنظیموں نے مصری عوام کے حق میں مظاہرہ کیاتصویر: dpa

انٹیلی جنس ایجنسیوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مصری عوام کی ناراضگی اور انقلاب کی کامیابی سے یہاں جموں و کشمیر میں علیحدگی پسندوں کا حوصلہ بڑھ سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں 1989ءکے مشرقی یورپی بحران کی مثال سامنے ہے، جب کشمیر میں بھی مسلح جدوجہد کا آغاز اور بڑے پیمانے پر مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔

بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے سابق سربراہ بی رمن کا کہنا ہے کہ مغربی ایشا میں جاری تحریکوں کا اثرجلد یا پھر دیر میں جموں و کشمیر پر پڑنا لازمی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ’’ ہمیں اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئے کہ جموں و کشمیر میں ایسا نہیں ہو سکتا‘‘۔ را کے سابق سربراہ نے مشورہ دیا ہے کہ جموں و کشمیر میں عوام کے اندر اس طرح کا کوئی ولولہ پیدا ہونے سے پہلے اسے ختم کرنے کے لئے جلد از جلد مناسب اقدامات کئے جانے چاہیں۔ انہوں نے کہا کہ سکیورٹی فورسزز کو مظاہرین کے ساتھ نمٹنے میں حتی الامکان تحمل سے کام لینا چاہئے، جب کہ حکومت کو عوام دوست پالیسیاں نافذ کرنی چاہئے۔

مشرق وسطی امور کے ماہر ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے تاہم کہا کہ مصری عوام کی بغاوت کا جنوبی ایشیائی ملکوں پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا البتہ عرب ممالک اس سے نہیں بچ سکیں گے۔ مصر اور اس کے اطراف میں واقع 23 عرب ملکوں میں جلد یا دیر اس انقلاب کے اثرات یقیناً پڑیں گے۔

سابق سفارت کار اور مشرق وسطی امور پر وزیر اعظم کے مشیر چنمئے گریکھن کا کہنا ہے کہ یوں تو بھارت کا یہ موقف درست ہے کہ وہ کسی بھی ملک کے عوام کو اس بات کی ہدایت نہ دے کہ انہیں کس طرح کی حکومت قائم کرنی چاہئے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ حقیقی جمہوری تحریک کی مدد نہ کی جائے۔ انہوں نےکہا کہ مصرکی عوام یہ بات ضرور یاد رکھیں گے کہ تاریخ کے اتنے اہم موڑ پر کن ملکوں نے ان کا ساتھ دیا تھا۔سابق سفارت کار نے مشورہ دیا کہ حکومت کو کم از کم ایسا بیان ضرور دینا چاہئے کہ وہ اصلاحات کی حامی اور مظاہرین کے خلاف سخت اقدامات کی مخالف ہے۔

Indien Außenminister SM Krishna
یہ مصر کا داخلی معاملہ ہے تاہم حکومت اس پر قریبی نگاہ رکھے ہوئے ہے، ایس ایم کرشناتصویر: AP

ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کا تاہم کہنا ہے کہ بھارت، مصر کے عوامی انقلاب میں کسی طرح کا رول ادا کرنے کے پوزیشن میں نہیں ہے کیونکہ وہ امریکہ کا ضمیمہ بن کر اخلاقی طاقت کھوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے جب سے غیر وابستہ تحریک سے منہ موڑا ہے اس کی کوئی وقعت نہیں رہ گئی ہے۔

اس دوران وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا نے پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈر سشما سوراج سے ملاقات کی اور مصر کے حوالے سے حکومت کے موقف سے آگاہ کیا۔ انہوں نے مصر سے واپس لائے گئے بھارتی شہریوں کے بارے میں بھی بتایا۔ دریں اثنا بدھ کے روز بھارت میں مختلف سماجی، سیاسی اور طلبہ تنظیموں نے مصری عوام کے حق میں مصری سفارت خانے کے سامنے مظاہرہ کیا۔

رپورٹ : افتخار گیلانی

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں