1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’مصری جیلیں شدت پسندی کی آماج گاہیں‘

عاطف توقیر
12 دسمبر 2017

ایک آئرش شہری نے چار برس مصری جیل میں گزارنے کے بعد بتایا ہے کہ قیدخانوں میں گنجائش سے زائد قیدی رکھے جاتے ہیں اور وہاں شدت پسند گروپ اسلامک اسٹیٹ کی طرز کے شدت پسندانہ خیالات ایک عمومی بات ہیں۔

https://p.dw.com/p/2pE0v
Ägypten Kairo Eingang Tora Gefängnis
تصویر: Getty Images/AFP/G. Guerica

ابراہیم ہلاوہ کو سن 2013ء میں تب کے صدر محمد مرسی کے خلاف احتجاجی دھرنے کے خاتمے کے لیے سکیورٹی فورسز کے ایک آپریشن کے وقت گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں ملک کی قریب چھ جیلوں میں رکھا گیا، جب کہ رواں برس اکتوبر میں بالآخر رہا کر دیا گیا۔

مرسی کی کم از کم ایک سزا منسوخ، دوبارہ مقدمہ سنا جائے

مصر کے سابق صدر مرسی کی سزائے قید برقرار

سزائے موت کے بعد عمر قید کی سزا بھی

21 سالہ آئرش شہری ابراہیم ہلاوہ نے مصری جیلوں میں گزارے اپنے ایام کی بابت بتایا کہ اس سے انہیں ان قیدخانوں کی خوف ناک اور پرتشدد جہتوں کا علم ہوا، جن میں حکومت مخالف افراد کو اندھا دھند بھرا گیا۔

آئرلینڈ کے دارالحکومت ڈبلن کے نواحی علاقے کرُملن میں مصری نژاد والدین کے ہاں پیدا ہونے والے ہلاوہ نے بتایا کہ اسے تشدد کو ہوا دینے اور قتل کے لیے اکسانے جیسے الزامات کے تحت سزائے موت سنائی گئی تھی، جب کہ قید کے دوران سلاخوں اور زنجیروں سے اس قدر شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ کئی بار وہ اور اس کے ساتھ قیدی مکمل نااُمیدی کا شکار ہو گئے تھے۔

’’ابتدا میں کسی نے داعش کا نام تک نہیں سنا تھا، مگر جب میں جیل سے آزاد ہوا، اس وقت تک قریب بیس فیصد قیدی کھلے عام داعش اور اس شدت پسند تنظیم کے نظریات کے حامی تھے۔‘‘

ہلاوہ نے مزید بتایا، ’’ہو سکتا ہے کہ یہ فقط کہنے کو ہو مگر وہاں کئی انجینیئرز، ڈاکٹرز اور طالب علم جو پہلے اپنے گھروں کو واپس لوٹنا چاہتے تھے، اس بلاجواز  قید اور صعوبتوں سے اس قدر برہم ہیں کہ اب اس سب کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔‘‘

حالیہ کچھ عرصے میں مصری علاقے سینائی میں شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے اتحادی جنگجو گروپ خاصے متحرک ہوئے ہیں اور اب تک سینکڑوں سکیورٹی اہلکاروں اور عام شہریوں کو ہلاک کر چکے ہیں۔ گزشتہ ماہ ایک صوفی مسجد پر ہونے والے حملے میں تین سو سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے، جب کہ حملہ آور سیاہ پرچم (داعش کا پرچم) لہراتے دیکھے گئے تھے۔

جرمن اسلام کانفرنس، مکالمت کے دس برس

سن 2013ء میں بڑے عوامی مظاہروں کے بعد اسلام پسند منتخب صدر محمد مرسی کو برطرف کر دیا گیا تھا، جب کہ اسلام پسندوں کے خلاف شدید کریک ڈاؤن کیا گیا تھا۔ اس کریک ڈاؤن کے نتیجے میں قریب ساٹھ ہزار افراد کو حراست میں لیا گیا، تاہم اس حکومتی کارروائی میں وہ افراد بھی آئے جو ملک میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے حق میں آواز اٹھا رہے تھے۔ ہلاوہ نے بتایا کہ جیل حکام اسے عمومی طور پر ’سیاسی قیدی‘ کہہ کر پکارا کرتے تھے اور حتیٰ کے جیل میں ان کے کمروں کے باہر بھی یہی لکھا ہوتا تھا۔ ہلاوہ نے بتایا کہ وہ کمرہ جس میں زیادہ سے زیادہ دس افراد رکھے جا سکتے تھے، وہاں درجنوں قیدیوں کو ٹھونسا جاتا ہے۔