1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مصری صدرحسنی مبارک کا دورہ امریکہ

17 اگست 2009

امريکی صدر اوباما کے قاہرہ ميں مسلم دنيا سےخطاب کے چند ہفتے بعد مصری صدر حسنی مبارک سترہ اور اٹھارہ اگست کو واشنگٹن کا دورہ کر رہے ہيں۔

https://p.dw.com/p/JD4k
انورالسادات (دائیں) کے قتل سے کچھ دیر قبل لی گئی ان کی حسنی مبارک کے ساتھ ایک یادگار تصویرتصویر: AP

حسنی مبارک حکومت کے، امريکہ اور مغربی ممالک کے ساتھ بڑے پائيدار تعلقات ہيں ليکن مصر ميں انسانی حقوق کی خلاف ورزيوں اور جمہوريت کی کمی کی وجہ سے ان تعلقات کو مسلسل تنقيد کا نشانہ بنايا جاتا ہے۔

مصر کے صدر حسنی مبارک کو بعض حلقے امن کے قيام کے لئے ثالثی کرنے والا جبکہ بعض ایک آمر قرار ديتے ہيں۔ مغربی ممالک کے لئے،جو ايک ناقابل اعتبار مطلق العنان حکمران کے مقابلے ميں ايک عقلمند آمر سے بات چيت کو ترجيح ديتے ہيں، مبارک ايک کم تر درجے کی برائی ہيں۔

حسنی مبارک نے 1981ء ميں بڑے ڈرامائی حالات ميں اقتدار سنبھالا تھا۔ فوجی پريڈ کے دوران مرحوم صدر انور السادات پر عسکريت پسندوں کی مشين گنوں سے گوليوں کی بوچھاڑ کے منظر نے ہميشہ کے لئے مشرق وسطٰی کی تاريخ پر اپنی چھاپ ڈال دی ہے۔ اس حملے کی وجہ اسرائيل کے ساتھ مصر کا امن معاہدہ تھا، جس پر سادات نے اُس سے دو سال قبل دستخط کئے تھے۔ صدر سادات کے نائب،حسنی مبارک جو پريڈ کی سلامی لينے کے لئے ان کے با لکل ساتھ ہی کھڑے تھے، اِس حملے میں معجزانہ طور پربچ گئے تھے اورانہوں نے اس کے بعد صدر کا عہدہ سنبھالا تھا۔

Hosni Mubarak und Barack Obama
قریب تین عشروں سے برسر اقتدار صدر مبارک جون میں امریکی ہم منصب اوباما کے ہمراہتصویر: AP

صدر مبارک نے مرحوم صدر سادات کی خارجہ پاليسی جاری رکھی۔ وہ يہ سمجھتے ہيں کہ حقيقی کاميابی بات چيت کے ذريعے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ چنانچہ مصر، مذاکرات کے ذريعے اسرائيل سے اپنے وہ سارے علاقے واپس حاصل کر چکا ہے، جو اسرائیل نے 1967ء کی جنگ ميں اس سے چھينے تھے۔ صدر مبارک اسی طرز پر فلسطينيوں اور اسرائيل کے مابين بھی امن قائم کرنے کے لئے ثالثی کر رہے ہيں۔ ان کا کہنا ہے کہ اصل کنجی مذاکرات ہيں: ’’ہميں دونوں فريقوں کو آپس ميں ملانے کے لئے سب کچھ کرنا پڑے گا،خواہ وہ چاہيں يا نہ چاہيں۔ ہميں مصر اور دوسرے ملکوں کی مدد سے اس شيطانی چکر کو توڑنا ہوگا۔ کوئی اور راستہ نہيں ہے‘‘۔

مغربی ملکوں کے لئے يہ ايک معتدل آواز ہے۔ وہ مصر کو علاقے ميں استحکام کا عنصر سمجھتے ہيں۔ اس سے مصر کو فائدہ ہو رہا ہے۔ امريکہ جن ملکوں کو اقتصادی اور فوجی امداد ديتا ہے، ان ميں اسرائيل کے بعد دوسرا نمبر مصر کا ہے۔

تاہم داخلی طور پر مغرب کے ساتھ اتحاد صدر مبارک کے لئے مشکلات کا باعث ہے۔ ان کے مخالفين انہيں غدار کہنے تک سے نہيں جھجھکتے۔ يوں وہ 1981ء سے، آہنی ہاتھ کے ذريعے،ہنگامی قوانين کی مدد سے حکومت کر رہے ہيں، جس کی وجہ سرکاری طور پر انتہا پسندوں کی روک تھام بيان کی جاتی ہے۔

تاہم اہم ترين اپوزيشن اخوان المسلمين پر پوليس کے تشدد کے باوجود ان کا معاشرے ميں اثر بڑھ رہا ہے۔ سڑکوں پر سر ڈھانپنے والی خواتين کی تعداد ميں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

صدر مبارک اب اسی برس کے ہوچکے ہيں اور ان کے جانشين کا مسئلہ اہم بنتا جا رہا ہے۔

معلوم ہوتا ہے کہ وہ شام کی طرز پر حکومت کو اپنے خاندان ہی ميں رکھنا چاہتے ہيں اور خفيہ طور پر اپنے لڑکے جمال کو اپنی جانشينی کے لئے تيار کر رہے ہيں۔

رپورٹ: حسن زنی نَید / شہاب احمد صديقی

ادارت: امجد علی