1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مصر ميں عبوری حکومت کے وزير اعظم کی نامزدگی

25 نومبر 2011

مصر ميں صدر حسنی مبارک کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد تقريباً ايک سال گذر چکا ہے ليکن ہنگامے ابھی تک ختم نہيں ہوئے۔ اب مظاہرين فوجی حکومت کے فوری خاتمے اور اقتدار کی ايک سول حکومت کو منتقلی کا مطالبہ کر رہے ہيں۔

https://p.dw.com/p/13H63
تصویر: dapd

مصری دارالحکومت قاہرہ ميں تحرير چوک پر آج ساتويں دن بھی ہزاروں مظاہرين جمع ہو گئے ہيں۔ وہ حکمران فوجی کونسل پر يہ دباؤ ڈال رہے ہيں کہ وہ اقتدار سويلين حکومت کو منتقل کر دے۔ مظاہرين ايک عبوری حکومت کے سربراہ کے طور پر سابق وزير اعظم کمال الجنزوری کی تقرری کی بھی مخالفت کر رہے ہيں۔ فوجی کونسل نے الجنزوری کو عبوری حکومت کا سربراہ نامزد کر ديا ہے۔

کل رات بہت دير گئے تک بھی تحرير چوک پر دن کا سا سماں تھا۔ لوگ بڑی تعداد ميں جمع تھے اور نعرے لگا رہے تھے۔ وہ اظہار رائے کی آزادی کا مطالبہ کر رہے تھے اور چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ اب وہ کبھی بھی اپنے منہ بند نہيں کريں گے۔ ايک اچھی بات يہ ہے کہ کئی دنوں سے جاری تشدد کے بعد بڑی مشکل سے فائر بندی کا جو سمجھوتہ ہوا ہے، اُس پر کم ازکم قاہرہ ميں عمل ہو رہا ہے۔ اس ميں وہ رکاوٹيں بھی مدد دے رہی ہيں، جو فوجيوں نے مجمع اور پوليس کو ايک دوسرے سے عليحدہ رکھنے کے لیے کھڑی کی ہيں۔

مصر کی فوجی کونسل کے سربراہ فيلڈ مارشل طنطاوی اور وزير اعظم الجنزوری
مصر کی فوجی کونسل کے سربراہ فيلڈ مارشل طنطاوی اور وزير اعظم الجنزوریتصویر: picture-alliance/dpa

مصر ميں فروری سے حکومت کرنے والی فوجی کونسل عبوری حکومت کو اقتدار منتقل کرے گی، جو اگلے سال جون ميں ہونے والے صدارتی انتخابات تک ملک کا انتظام سنبھالے گی۔ فوجی کونسل نے سرکاری طور پر الجنزوری کے چناؤ کا اعلان نہيں کيا ہے ليکن سرکاری ميڈيا يہ اطلاع دے رہے ہيں کہ الجنزوری نے فوجی کونسل کی طرف سے ايک عبوری حکومت کی قيادت کی درخواست قبول کر لی ہے۔ مظاہرين اس اقدام پر اس ليے بھی تنقيد کر رہے ہيں کہ کمال الجنزوری سابق صدر حسنی مبارک کے دور ميں بھی کئی بہت اہم سرکاری عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔

تحرير چوک پر ايک فيلڈ ہسپتال
تحرير چوک پر ايک فيلڈ ہسپتالتصویر: picture-alliance/dpa

سابق سول حکومت نے اس ہفتے حکومت فوری طور پر سويلين حکومت کو منتقل کرنے کے سلسلے میں ہونے والے پر تشدد احتجاجات کے بعد استعفٰی دے ديا تھا۔

ايک مصری نے موجودہ حالات پر مايوسی ظاہر کرتے ہوئے کہا: ’’ہم يہ اميد کر رہے تھے کہ انقلاب کے دو ماہ بعد ہی تبديلياں آئيں گی ليکن ہم نے جنوری سے لے کر نومبر تک اپنے مطالبات پر کوئی رد عمل نہيں ديکھا ہے۔ تبديلی کے مطالبات کے ليے اپنی جانوں کی قربانی ديے ہمیں ايک سال ہونے کو آيا ہے، ليکن ابھی تک اس انقلاب نے کوئی تبديلی پيدا نہيں کی۔ يہی وجہ ہے کہ ہم اتنے غصے ميں ہيں۔‘‘

مصر میں پچھلے دنوں تشدد کی نئی لہر ميں قاہرہ، اسکندريہ اور اسماعیلیہ جیسے شہروں میں کم ازکم 41 افراد لقمہء اجل بن چکے ہيں۔

تحرير چوک سے باہر مصريوں کو ملک کی ابتر معاشی حالت کی فکر ہے۔ بدامنی کی وجہ سے برآمدات ميں بہت زيادہ کمی آ چکی ہے۔ ايک شخص نے کہا کہ ہميں معاشی انقلاب کی ضرورت ہے۔ اس نے کہا کہ مصر صرف تحرير چوک نہيں ہے۔ ملک ميں کرپشن زوروں پر ہے اور ان مسائل پر توجہ دينے کی ضرورت ہے۔ اُس نے پچھلے دنوں سے تحرير چوک پر جاری مظاہروں پر بھی تنقيد کی۔

آج قاہرہ کے مشرقی حصے ميں ہزاروں افراد نے فوجی حکومت کے حق ميں مظاہرہ کيا اور نعرے لگائے کہ فوج کو اقتدار منتقل نہيں کرنا چاہئيے۔

امريکی حکومت نے مصر کی فوجی کونسل پر زور ديا ہے کہ وہ اقتدار منتقل کر دے۔

اُدھر يہ اطلاع ملی ہے کہ بين الاقوامی ايٹمی توانائی ايجنسی کے مصر سے تعلق رکھنے والے سابق سربراہ البرادائی بھی تحرير چوک کے مظاہرين ميں شامل ہو گئے ہيں۔ 

پیر کے دن سے مصر ميں پارليمانی انتخابات بھی شروع ہو رہے ہيں۔

رپورٹ: شہاب احمد صديقی / خبر رساں ادارے

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں