1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مصر میں ہنگامی حالت میں توسیع

2 مئی 2006

مصر میں سن 1981ء سے نافذ چلی آ رہی ہنگامی حالت میں اپوزیشن اور حقوقِ انسانی کے علمبردار گروپوں کی مزاحمت کے باوجود مزید دو برسوں کے لئے توسیع کر دی گئی ہے۔ اتوار 30 اپریل کو مصری وزیرِ اعظم احمد نظیف نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سلسلے میں ایسا کرنا ضروری تھا۔ بلاشبہ گذشتہ ہفتے دھب کے مقام پر دہشت گردی بھی ملک کے لئے ایک بڑا دھچکا تھی لیکن ملک کے سیاسی منظر پر طاری جمود بھی کم افسوسناک نہیں ہے۔ قاہرہ سے Reinhard Baumgarten

https://p.dw.com/p/DYLY
مصر میں امریکہ کے خلاف ہونے والا ایک مظاہرہ
مصر میں امریکہ کے خلاف ہونے والا ایک مظاہرہتصویر: AP

کا بھیجا ہوا تبصرہ۔

مصر اپنے 75 ملین نفوس کے ساتھ عرب دُنیا کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے۔ گذشتہ ڈیڑھ برس میں یہاں کے سیاسی منظر پر جو کچھ دیکھنے میں آیا، اُسے مصری سیاست میں کوئی انقلابی موڑ تو یقینا نہیں البتہ جمہوریت کا ہلکا سا جھونکا ضرور کہا جا سکتا تھا۔

کئی عشروں کے بعد پہلی مرتبہ لوگوں کو کھلے عام احتجاج کرنے اور اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے کی اجازت دی گئی۔ مصری عوام نے ملک میں اپنی انتہائی حدوں کو چھوتی ہوئی بدعنوانی، اقربا پروری، سماجی ناہمواریوں اور بڑے پیمانے پر پائی جانے والی بیروزگاری پر دل کھول کر بحث کی۔ لیکن ہنگامی حالت میں مزید دو برسوں کے لئے توسیع کے اعلان کے بعد سے اظہارِ رائے کی یہ آزادیاں ایک بار پھر خطرے سے دوچار ہوتی نظر آ رہی ہیں۔

گذشتہ برس اپنی انتخابی مہم کے دوران مصری صدر حسنی مبارک نے اعلان کیا تھا کہ وہ ہنگامی حالت ختم کرنا اور شہریوں کو زیادہ حقوق دینا چاہتے ہیں۔ تاہم حال ہی میں دھب کے مقام پر ہونے والی دہشت گردی، جس میں مرنے والوں کی تعداد اب بڑھ کر اُنیس تک جا پہنچی ہے، ہنگامی حالت کے قانون میں توسیع کی ایک بڑی وجہ بن گئی ہے۔

مصر میں ہنگامی حالت کے نفاذ کو تقریباً رُبع صدی ہونے کو ہے۔ اِس عرصے کے دوران تقریباً 1,400 افراد بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر دہشت گردی کے نتیجے میں موت کا شکار ہوئے۔ اب یہ کہنا ظاہر ہے مشکل ہے کہ ہنگامی حالت نافذ نہ ہوتی تو یہ تعداد زیادہ یا کم ہوتی۔ ایک بات البتہ طے ہے کہ حسنی مبارک کے آمرانہ طرزِ قیادت، فیصلے کرنے کے سیاسی عمل میں عوام کی عدم شرکت، مقتدر طبقوں کے احتساب کے فُقدان اور اظہارِ رائے اور سیاسی سرگرمیوں پر عاید پابندیوں نے مصر کی موجودہ ابتر صورتِ حال میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ یہ وہ نتیجہ ہے ، جس پر سماجی امور کے وہ کئی ایک نامور عرب ماہرین بھی پہنچے ہیں ، جنہوں نے اقوامِ متحدہ کے ایماء پر عرب ممالک میں انسانی ترقی کے حوالے سے بہت سے جائزے مرتب کئے تھے۔

مصر کے مقتدر طبقوں کو یقین ہے کہ زیادہ شہری آزادی ملکی استحکام کو خطرے سے دوچار کر دے گی۔ ہو لیکن اِس کے بالکل برعکس رہا ہے۔ انٹرنیٹ اور سیٹیلائٹ ٹیلی وژن کی وجہ سے اب مصر کوئی ایسا خطہ نہیں رہا، جہاں کے عوام یہ جانتے ہی نہ ہوں کہ دُنیا میں ہو کیا رہا ہے۔ اب مصری عوام سرکاری ذرائع ابلاغ کی سب اچھا ہے کی رپورٹوں پر یقین نہیں کرتے۔

مبارک کی زیرِ قیادت مصر ایک سماجی آتِش فشاں کی سی شکل اختیار کر گیا ہے اور مصری باشندے یہ بات جانتے ہیں۔ سیاسی آزادیوں کو اور زیادہ محدود بنائے جانے کا نتیجہ ایک ایسے سیاسی آتِش فشاں کی صورت میں برآمد ہو گا، جس کے نتائج ناقابلِ اندازہ ہوں گے۔ پھر سڑکوں پر بے قابو مظاہرین کی جگہ لاٹھیاں گھمانے والے پولیس والے اور کرائے کے غنڈے راج کریں گے۔

حسنی مبارک اِس اعتبار سے تو تحسین کے لائق ہیں کہ 1981ء میں مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں اپنے پیش رَو انور السادات کے قتل کے بعد اُنہوں نے مصر کو سیاسی استحکام دیا ہے۔ لیکن یہ استحکام اب ایک عرصے سے جمود، تنزلی اور جبر و تشدد کا ہم معنی ہو کر رہ گیا ہے۔

افسوس کی بات ہے کہ مغربی دُنیا میں مصر کے ساتھی ممالک سیاسی جبر کے مصری نظام کو خاص طور پر اِس لئے قبول کر لیتے ہیں کہ اُس پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کا لیبل لگا ہوا ہے۔ لیکن یہ لیبل محض ایک فریب ہے، جس کی ہو سکتا ہے کہ کبھی بہت بڑی قیمت بھی چکانی پڑے۔