1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مصنوعی مادوں سے آبی وسائل کو لاحق سنگین خطرات

28 اکتوبر 2010

سن 2050ء میں ہماری زمین پر اندازاً پانچ ارب انسان شہروں میں رہ رہے ہوں گے۔ ان سب انسانوں کو پانی فراہم کیا جانا پڑے گا، نکاسیء آب کا انتظام کیا جانا پڑے گا اور اِنہیں بیماریوں کے جراثیموں سے بچانے کی کوششیں کرنا ہوں گی۔

https://p.dw.com/p/Pq0u
پانی کو مصنوعی مادوں سے لاحق خطراتتصویر: dpa

صاف پانی کی قلت اپنی جگہ لیکن کھاد اور کیماوی مادوں کے باعث دریاؤں، جھیلوں اور سمندروں کا پانی زیادہ سے زیادہ آلودہ ہوتا جا رہا ہے۔ اب لیکن ایک نیا اور بڑا خطرہ وہ مصنوعی مادے ہیں، جو پانی میں مل کر زندگی کے اہم عوامل مثلاً افزائشِ نسل کے عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

یہ مصنوعی مادے کیڑے مار ادویات، محلل مادوں اور دیگر ادویات میں پائے جاتے ہیں اور ناقابلِ اندازہ نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔ اِن مادوں کے اثرات زہریلے ہو سکتے ہیں اور یہ انسانوں اور جانوروں کے ہارمون نظام میں خلل انداز ہو سکتے ہیں۔ ماہرین کو متعدد مطالعاتی جائزوں کے دوران مچھلیوں، بحری عقابوں، حتیٰ کہ برفانی ریچھوں میں بھی اِن مادوں کی موجودگی کے شواہد ملے ہیں۔

Flash-Galerie Diätlügen - Pillen
خواتین کے زیر استعمال مانع حمل گولیوں میں ایسے مادے موجود ہوتے ہیں، جو پانی کے معیار کو متاثر کر سکتے ہیںتصویر: picture alliance/dpa

پانی کے موضوع پر تحقیق کرنے والی سویڈن کی خاتون ماہر مَیلن فالکن مارک اپنے واضح موقف کے لئے دُنیا بھر میں شہرت رکھتی ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ یہ مادے ایک ٹائم بم کی حیثیت رکھتے ہیں۔’’یہ مادے ہمارے لئے اور ہماری آنے والی نسلوں کے لئے ایک سنگین مسئلہ ہیں کیونکہ یہ افزائشِ نسل کے عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر ہم اِس خطرے پر قابو پانا چاہتے یں تو ہمیں اِس آلودگی کی جڑ کو تلاش کرنا ہو گا۔ اگر ایک بار کوئی مادہ پانی میں شامل ہو گیا تو پھر وہ پوری دُنیا میں پھیل جائے گا کیونکہ پانی ہر جگہ موجود ہے۔‘‘

مثال کے طور پر آسٹروجن نامی ہارمون۔ انسانی جسم قدرتی طور پر پیدا ہونے والے ہارمونز کے ساتھ ساتھ مصنوعی طور پر تشکیل کردہ ہارمونز بھی خارج کرتا ہے، مثلاً جب کوئی عورت مانع حمل گولیاں استعمال کرتی ہے۔ اِسی طرح صنعتی شعبے میں استعمال ہونے والے کیمیکلز میں بھی ایسے مادے موجود ہوتے ہیں، جو ہارمونز پر اثر انداز ہوتےہیں۔

بازل یونیورسٹی کی ماہرِ حیاتیات پاٹریسیا ہولم کا کہنا ہے کہ یہ مادے پانی میں دیر تک موجود رہتے ہیں کیونکہ حیاتیاتی طور پر اِن کی تحلیل بہت مشکل سے ہو پاتی ہے۔’’چونکہ یہ مادے ہارمونز ہی کی طرح اثر انداز ہوتے ہیں، اِس لئے کسی اور مادے کے ساتھ مل کر کوئی کیمیاوی عمل کرنے کے لئے ایک اکیلا مالیکیول ہی کافی ہوتا ہے۔ انتہائی کم مقدار بھی جسم میں سرگرم ہو سکتی ہے اور ہارمون نظام کو متاثر کر سکتی ہے۔ ہم انسان جو ہارمونز خارج کرتے ہیں، وہ پانی میں شامل ہو کر مچھلیوں اور دیگر جانداروں پر ویسے ہی اثر انداز ہوتے ہیں، جیسے کہ ہمارے ہارمونز کے اپنے نظام میں۔‘‘

Pfizer Konzern Pillen Tabletten Symbolbild
یورپی یونین میں رجسٹرڈ ادویات کی تعداد آج کل تقریباً تیس ہزار ہےتصویر: AP

ابھی ماہرین اِس شعبے میں اپنی تحقیق کے نقطہء آغاز پر کھڑے ہیں۔ ابھی وہ نہیں بتا سکتے کہ یہ مادے کتنے بڑے پیمانے پر جانداروں کو نقصان پہنچا سکے ہیں تاہم اُن کے مشاہدات بہرحال تشویش ناک ہیں۔ پاٹریسیا ہولم بتاتی ہیں:’’ہم نے دیکھا ہے کہ گزشتہ پچاس برسوں کے دوران بہت سے ملکوں میں مردوں کے مادہء تولید میں بہت زیادہ کمی ہوئی ہے، کہیں کہیں اِن کی تعداد میں نصف کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ اِسی طرح خواتین میں چھاتی کے کینسر کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ جانوروں پر تجربات سے ہمیں پتہ چلا ہے کہ مثلاً آسٹروجن ہارمون کی وجہ سے چوہوں میں ٹیومر یا رسولی کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔‘‘

پاٹریسیا ہولم کے مطابق سماجی سطح پر اِس موضوع پر ایک بڑی بحث شروع ہونی چاہئے، جس میں حیاتیاتی اور کیمیاوی ماہرین کے ساتھ ساتھ ماہرینِ قانون اور سیاستدان بھی شریک ہوں۔ صارفین کو بھی سوچنا ہو گا کہ کونسے مادے واقعی ضروری ہیں۔ یورپی یونین میں رجسٹرڈ ادویات کی تعداد آج کل تقریباً تیس ہزار ہے اور روزانہ اِن کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ جرمنی میں خریدی جانے والی ایک تہائی ادویات بغیر کچھ سوچے سمجھے ٹوائلٹ میں بہا دی جاتی ہیں۔

رپورٹ : امجد علی

ادارت : افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں