1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مضایا کے بچے فوری طبی امداد کے منتظر

18 اگست 2016

ہسپتال کی تیز روشنی میں آنکھیں موندے، شامی شہر مضایا میں گردن توڑ بخار میں مبتلا دس سالہ يمان عزالدين شدید تکلیف سے گزر رہا ہے اور اس کے والدین اسے بے بسی سے دیکھتے رہنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کر سکتے۔

https://p.dw.com/p/1Jksh
تصویر: Reuters/O. Sanadiki

یمان عزالدین ایسے بہت سے شدید بیمار بچوں میں سے ایک ہے جو شامی دارالحکومت دمشق سے باہر حکومتی فورسز کے محاصرے میں آئے ہوئے شہر مضایا کے ہسپتال میں موجود ہیں اور جنہیں فوری طور پر کسی بہتر ہسپتال میں منتقل کیے جانے کی اشد ضرورت ہے۔ مضایا کا علاقہ شامی باغیوں کے زیر قبضہ ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق شامی حکومتی فورسز نے مضایا کو دو برس قبل گھیر لیا تھا اور گزشتہ موسم گرما سے اسے مکمل محاصرے میں لیا ہوا ہے۔ اسی باعث اس شہر کے 40 ہزار کے قریب باشندے خوراک اور ادویات وغیرہ کی شدید کمی کا شکار ہیں۔ 2015ء کے اواخر میں یہ شہر اُس وقت عالمی توجہ کا مرکز بنا تھا جب خبریں آئی تھیں کہ مضایا کے رہائشی خوراک کی کمی کے باعث بھوک سے مر رہے ہیں۔

ایک 10 شامی لڑکی جو مضایا میں گولی کا نشانہ بنی تھی، اسے ایک آن لائن مہم کے بعد اتوار 14 اگست کو دمشق کے ایک ہسپتال منتقل کر دیا گیا تھا مگر دیگر درجنوں بچے ابھی تک اسی شہر میں پھنسے ہوئے ہیں اور انہیں فوری طبی مدد کی اشد ضرورت ہے۔

رواں ہفتے مضایا میں سرگرم کارکنوں نے یمان کی ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جو وہاں موجود بچوں کی مدد کے لیے چلائی جانے والی مہم کا حصہ ہے۔ یمان کے والد الاء نے اے ایف پی کو بذریعہ فون بتایا، ’’اسے اتنی زیادہ تکلیف ہے کہ وہ روتا رہتا ہے۔‘‘ دُکھ بھری آواز میں الاء کا مزید کہنا تھا کہ وہ اتنے زیادہ درد میں ہے کہ ’اب ہمیں پہچانتا ہی نہیں‘۔ انہوں نے کہا، ’’مجھے نہیں معلوم کہ میں کس سے کہوں ۔۔۔ میں پوری دنیا سے، اقوام متحدہ سے، اور ہلال احمر سے درخواست کرتا ہوں کہ میرے بیٹے کو بچا لیں۔‘‘

گزشتہ ہفتے دو غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے بتایا گیا تھا کہ حکومتی فورسز کی طرف سے مضایا کے محاصرے کے بعد سے اب تک 86 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں 65 ایسے افراد بھی شامل ہیں جو خوراک کی کمی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے۔

مضایا کے محاصرے کے بعد سے اب تک 86 افراد ہلاک ہو چکے ہیں
مضایا کے محاصرے کے بعد سے اب تک 86 افراد ہلاک ہو چکے ہیںتصویر: picture-alliance/AA/F. Faham

اقوام متحدہ کے مطابق شام میں قریب چھ لاکھ شہری محاصرے میں آئے ہوئے ہیں۔ شامی باغی اور شدت پسند گروپ داعش بھی یہ طریقہ کار اختیار کیے ہوئے ہیں مگر زیادہ تر علاقے حکومتی فورسز کے محاصرے میں ہیں۔

طبی عملے کے مطابق یمان سمیت 13 ایسے بچے ہیں جنہوں فوری طور پر اس شہر سے نکال کر بہتر طبی سہولیات فراہم کیے جانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ معذور اور نابینا، 22 سالہ سمیع کو بھی بہتر سہولتوں والے کسی ہسپتال میں منتقل کرنا ضروری ہے۔

طبی امداد فراہم کرنے والے ایک گروپ کی طرف سے منگل کے روز فیس بُک پر ایک پیغام میں بتایا گیا کہ مضایا میں صرف فِیلڈ ہسپتال ہے جو زیادہ جدید نہیں ہے، اور وہ بھی ادوایات اور ساز و سامان کی کمی کا شکار ہے۔