1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

معیار کی اپنی قیمت ہوتی ہے: صارفین خود فیصلہ کریں

6 جنوری 2011

جرمنی ایک بار پھر اشیاء خورد و نوش سے متعلق ایک بڑے اسکینڈل کی زد میں ہے۔ مجرمانہ سرگرمیوں کے خلاف اقدامات کے لئے تکنیکی ترقی کی نہیں بلکہ کوالٹی کنٹرول کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ڈوئچے ویلے کا تبصرہ

https://p.dw.com/p/zuGA
جرمنی میں انڈوں اور جانوروں کے گوشت کا استعمال خطرناک ہو گیا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

صارفین کو فی الحال انڈوں اور گوشت سے پرہیز کرنا پڑے گا۔ زہریلے مادے ڈی آکسین سے آلودہ انڈوں کو پھینکنے کے بجائے ان سے تیار کردہ نوڈلز اورخراب گوشت، جس کے استعمال کی ڈیٹ بھی نکل چُکی ہو، ہمیں کیا کچھ استعمال کے لئے نہیں مل رہا ۔ اب اس بارے میں اسکینڈل سامنے آیا ہے تو جرمنی میں ایک تہلکا مچ گیا ہے۔ صارفین کی طرف سے احتجاج اور غصے کا اظہار حق بجانب ہے۔ کیونکہ جب جانوروں کے ذبیحہ خانوں کے فُضلہ میں مصنوعی ذائقہ دار کیمیائی مادے ملا کر سوسیجز تیار کئے جائیں اور صارفین کو اس ذائقہ دار مہلک شے کھانے کی ترغیب دلائی جائے تو اس عمل کے پیچھے مجرمانہ نیت کے سوا اورکچھ نہیں ہو سکتا۔ ایسا غلطی سے نہیں ہوا کرتا۔ یہ بھی اتفاقاً نہیں ہوا کہ جانوروں کے چارے میں پودوں سے حاصل کردہ چکنے مادے کے بجائے ڈی آکسین جیسے مہلک مادے کی ملاوٹ کی گئی اور کسانوں نے یہ چارہ اپنی مرغیوں، خنزیروں اور گا ئیوں کو کھلایا ۔

Flash-Galerie Deutschland Lebensmittel Lebensmittelskandale BSE
جرمنی میں جانوروں کے چارے میں بڑے پیمانے پر ڈی آکسین کی ملاوٹ کا سراغ لگا لیا گیا ہےتصویر: AP

اشیائے خورد و نوش اور پالتوجانوروں کی خوراک تیار کرنے والی صنعت میں ملاوٹ کا رجحان عام ہےکیونکہ اس سے بے تحاشہ آمدنی ہوتی ہے دوسرے یہ کہ اشیائے خورد و نوش کے سلسلے میں کئے جانے والے جرائم کی سزا کوئی خاص سبق آموز بھی نہیں ہوتیں۔ ایک واضح مد میں جرمانہ اور ایک دو سالوں کی قید کی سزا، جسے مُدت پوری ہونے سے پہلے ہی اس شرط پر معاف کر دیا جائےکہ مجرم آئندہ اپنا رویہ درست رکھے گا۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں اور اسے بھی بدلا جانا پڑا۔

ضروری یہ ہےکہ اشیائے خورد و نوش تیار کرنے والی کمپنیوں کو پکڑا جائے۔ اُن کے مالکان سے وضاحت طلب کی جائے کہ اُن کی مصنوعات میں کیا کیا اجزا شامل ہیں، اُن پر زور دیا جائے کہ وہ ان تفصیلات کو شفاف بنائیں کہ آخر بڑے ذائقے دار سوسیجزکن اجزا سے تیار کئےگئے ہیں، کیا یہ تازہ اور معیاری اجزا سے تیا کئے گئے ہیں یا جانوروں کے گوشت کے فُضلہ سے۔ نیز یہ بھی پوچھا جانا چاہئےکہ وہ جانور، جن کا ہم دودھ پیتےہیں، جن کے انڈے اورگوشت ہم کھاتے ہیں، اُنہیں کس طرح رکھا جاتا ہے اور انہیں کھانے کوکیا دیا جاتا ہے۔

Flash-Galerie Deutschland Lebensmittel Gammelfleich
ماضی میں بھی یورپ میں خراب گوشت کی فروخت کا اسکینڈل سامنے آ چُکا ہےتصویر: AP

اشیائے خورد و نوش کی کوالٹی کےکنٹرل کا نظام سخت تر اور موثر بنایا جائے، بہت سے حلقوں کی طرف سے ان اقدامات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ایک امر نہایت ضروری ہے : صارفین کی طرف سے اس سلسلے میں خود اپنی ذمہ داری قبول کرنا اور ان اہم معاملات میں خود شریک ہونا۔ کیونکہ آخرکار یہ فیصلہ صارفین خود ہی کرتے ہیں کے انہیں کیا کھانا ہے اور کن چیزوں سے پرہیز کرنا ہے۔ کن اشیاء پر وہ پیسے خرچ کرنا چاہتے ہیں اورکن پر نہیں۔

ہم ڈی آکسین سے آلودہ انڈوں کی مارکیٹ میں فروخت پر محض ناراض ہوتے رہیں۔ساتھ ہی خریداری کرتے وقت مارکیٹس میں دستیاب سستے ترین انڈے خریدیں، جن کے بارے میں کم و بیش سب ہی جانتے ہیں کہ یہ تھوک کے حساب سے فیکٹریوں میں تیار کی جانے والی اشیاء ہیں۔ اسی طرح مصنوعی طور پر انڈوں سے نکالی گئی مرغیوں کی نشو نما میں نہایت معمولی اخراجات آتے ہیں۔ انہیں چھوٹے چھوٹے پنجروں میں رکھا جاتا ہے اور نہایت معمولی کوالٹی والا چارا کھلایا جاتا ہے۔ ان باتوں کا صارفین کوخود خیال ہونا چاہئے۔ بیشک معیار کی اپنی قیمت ہوتی ہے۔

اب اس اسکینڈل پر بحث کے دوران انڈوں اور گوشت سے پرہیز کرنا محض مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اس سے صرف ایماندار کسانوں کو نقصان پہنچے گا جبکہ باقی کا کاروبار معمول کے مطابق چلتا رہے گا۔ مجرم ہاتھ مسلتے رہیں گے اور صارفین ہی احمق نظر آئیں گے۔

تبصرہ/ یوڈِٹ ہارٹل/ تحریر کشور مصطفیٰ

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں