1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مغربی معاشروں میں مسلمانوں کا انضمام : مواقع اور مسائل

22 مئی 2009

مغربی معاشروں میں بار بار مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تنازعات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ مسلمانوں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ یہاں کے معاشروں میں ضم ہونے سے گریز کرتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/HvY9

اس صورتحال میں مسلمانوں کو یہ شکوہ بھی رہتا ہے کہ اُنہیں امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور الگ تھلگ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ویانا میں ایک نیا ادارہ قائم ہوا ہے، ’’اسلام پر تحقیق کا بین الاقوامی ادارہ‘‘، جس کا نصب العین اِس طرح کے تنازعات پر قابو پانے میں مدد دینا ہے۔

آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کے شمالی حصے میں دریائے ڈینیوب کے کنارے واقع شاندار مسجد کے اندر ہی ایک اسلام مرکز بھی قائم ہے۔ یہیں پر پروفیسر السید الشاہد کا دفتر ہے، جو یہاں نئے نئے قائم کئے گئے اسلامی تحقیق کے بین الثقافتی ادارے کے انچارج ہیں۔ گذشتہ تیس برسوں سے وہ رہتے بھی یہیں ہیں اور کام بھی یہیں کرتے ہیں۔ تاہم سال کا کچھ حصہ وہ مصری دارالحکومت قاہرہ میں بھی گذارتے ہیں، جہاں وہ جامعہ الازہر میں اسلامیات کے اُستاد بھی ہیں۔ اپنے ادارے کے بارے میں وہ بتاتے ہیں: ’’اِس ادارے کا مرکز و محور ہے، اسلام پر تحقیق لیکن بین الثقافتی بنیادوں پر۔ اِس کا ٹھوس مطلب یہ ہے کہ اسلام کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا جائے۔ جن محقیقن کے ساتھ مل کر ہم کام کرتے ہیں، اُن میں سے زیادہ تر غیر مسلم ہیں۔‘‘

Papst in der al-Aqsa-Moschee Galeriebild normal
پاپائے روم مسجد اقصی میںتصویر: AP

ان غیر مسلموں میں اسلام کے ہی نہیں بلکہ دینیات، عُمرانیات، مشرقی علوم اور ثقافت کے ماہرین بھی شامل ہوتے ہیں۔ اسلام کے حوالے سے پیدا ہونے والے مختلف طرح کے سوالات پر ہر تین مہینے بعد سیمینارز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ایسی کانفرنسیں منعقد کی جاتی ہیں، جن میں مغربی معاشروں میں بسنے والے مسلمانوں کے روزمرہ معمولات کو موضوع بنایا جاتا ہے، مثلاً یہ کہ اسکولوں میں مسلمان طلبہ کو زبان کے حوالے سے کن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ اِس ادارے کےمنظم کردہ اجتماعات میں اسکولوں کے ڈائریکٹرز اور اساتذہ کو بھی بلایا جاتا ہے، جو اِن مسائل سے سب سے زیادہ واقف ہوتے ہیں۔

شکایات اور اعتراضات کے سلسلے کا آغاز اِس نئے ادارے کی سرگرمیاں شروع ہونے سے پہلے ہی ہو گیا تھا۔ پاس پڑوس میں رہنے والےلاؤڈ اسپیکر سے نشر ہونے والی اذان کو ناقابل برداشت قرار دیتے تھے حالانکہ یہ اذان محض مسجد کی اندرونی حدود میں سنائی دیتی تھی۔ پروفیسر الشاہد بتاتے ہیں: ’’ ہارے ہاں مصر میں ایک طرف کلیسا ہے تو دوسری جانب ایک مسجد۔ ہم گرجے کی گھنٹیاں بھی سنتے ہیں اور مؤذن کو بھی اور ہمیں اِس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ لیکن خیر، ہم یہاں اب اِس معاشرے میں ہیں اور اکثریت کے جذبات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے، جو کہ ہم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

اِس ادارے کے مرکزی موضوعات کا تعلق معاشروں اور مختلف ثقافتوں کے مابین مکالمت اور تبادلہء خیال سے ہے۔ مثلاً اگر آسٹریا کا کیتھولک عقیدے کا ایک نوجوان ایک مسلمان خاتون سے شادی کرنے کا خواہاں ہے تو کیا اُس کے لئے اُس کا اسلام قبول کرنا ضروری ہے؟ یا پھر اُن دونوں کو کن رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اور ... اگر گھر والے راضی نہ ہوں توکیسے کیسے اعتراضات سامنے آ سکتے ہیں؟

پروفیسر الشاہد کے خیال میں عالمگیریت کے اِس دَور میں ثقافتیں اور معاشرے ایک دوسرے میں ضم ہو رہے ہیں اور کوئی واضح شناخت ختم ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ ایسے میں اُنہیں ایسے بہت سے مسلمان یا پھر عیسائی اور یہودی نوجوان بھی نظر آتے ہیں، جو کسی نہ کسی سہارے کی تلاش میں ہیں۔ اُن کے خیال میں یہ سہارا مذہب ہی فراہم کر سکتا ہے، جو منطقی ضروریات کے ساتھ ساتھ جذباتی ضروریات کو بھی پورا کرتا ہے۔

Dialogue - Artikelbild
مغربی ممالک میں کئی ادارے بین المذاہن مکالمت کے لئے کام کر رہے ہیں

ویانا کا یہ ادارہ ایسے طریقے وضع کرنے کے لئے کوشاں ہے، جن کی مدد سے مسیحی اکثریت والے معاشروں میں بسنے والے مسلمان اپنی شناخت سے محروم ہوئے بغیر اِن معاشروں کا حصہ بن سکیں۔ یہاں بسنے والے مسلمان یورپ کی ثقافت، مذہب اور سماجی ڈھانچوں کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے۔ یہ ادارہ اُس کمی کو بھی پورا کرنا چاہتا ہے۔ دوسری جانب اکثریتی معاشرے کو بھی اسلام کے اصل اہداف کے بارے میں آگاہی دینا بہت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اِسی صورت میں ذہنوں میں پائے جانے والے تعصبات دور کئے جا سکتے ہیں۔ پروفیسر السید الشاہد کے خیال میں زیادہ تر تنازعات غلط فہمیوں ہی سے جنم لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلام دیگر ثقافتوں کے ساتھ ہم آہنگی کی صلاحیت رکھتا ہے اور اِس کا اندازہ مختلف زمانوں میں بحیرہء روم، مشرقی ایشیا یا پھر افریقہ جیسے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ثقافتوں کے حامل خطوں میں اسلام کی تاریخ کو سامنے رکھ کر آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔

شیریں رُشک/ امجد علی