مقدونيہ کی سرحد پر پھنسے پناہ گزين
مقدونيہ نے يونان کے ساتھ اپنی سرحد پر تين کلوميٹر طويل باڑ لگانے کا کام مکمل کر ليا ہے۔ اس دوران وہاں پھنسے مہاجرين کے درميان کشيدگی بڑھ رہی ہے، جس پر قابو پانے کے ليے غير سرکاری تنظيموں نے حکومت سے مدد کا مطالبہ کيا ہے۔
يونانی علاقے ميں بے يار و مددگار
مقدونيہ کی سرحد پر پاکستانی پناہ گزين حسن اور محمد صغير خود کو گرم رکھنے کے ليے کوڑے کے ڈھير کو آگ لگانے کی کوشش کر رہے ہيں۔ مقدونيہ، سربيا اور سلووينيا کی جانب سے ’محفوظ‘ ملکوں سے تعلق رکھنے والے مہاجرين کو روکنے کے فيصلے کے بعد سے يہ دونوں بھائی يونانی علاقے اڈومينی ميں پھنس گئے ہيں۔ بلقان خطے کے چند ملکوں کے حاليہ اقدام کے نتيجے ميں اس مقام پر ڈيڑھ تا دو ہزار مہاجرين پھنسے ہوئے ہيں۔
سخت سردی ميں کھلے آسمان تلے
’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کے تعاون سے اس مقام پر قريب دو ہزار پناہ گزينوں کے ليے تين بڑے خيمے کھڑے کر ديے گئے ہيں، جن ميں گرم رکھنے کا انتظام بھی ہے۔ تاہم ادارے کے اڈومينی ميں فيلڈ کوآرڈينيٹر انتونس ريگاس کے بقول اب بھی ايک ہزار کے لگ بھگ مہاجرين رات کے وقت چھ ڈگری درجہ حرارت ميں کھلے آسمان تلے سو رہے ہيں۔
مدد اور تعاون کا فقدان
مراکش سے تعلق رکھنے والا ايک نوجوان سرحد کھلنے کا منتظر ہے تاہم ريگاس کے بقول اس کے امکانات کافی کم ہی ہيں۔ انہوں نے بتايا، ’’ہم درخواست کر رہے ہيں کہ حکومت کی جانب سے کم از کم تين نمائندے يہاں بھيجے جائيں جو کيمپ چلانے ميں مدد کر سکيں۔ يہاں کے مکمل انتظامات کی نگران اب غير سرکاری تنظيميں ہی ہيں۔ ’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کی ذمہ داری نہيں کہ وہ حکومت کا کام سر انجام دے۔
شہريت کی بنياد پر تقسيم
اس وقت يوميہ بنيادوں پر سينکڑوں شامی، عراقی اور افغان شہری يونان سے مقدونيہ ميں داخل ہو رہے ہيں جبکہ پيچھے رہ جانے والے الجھن کا شکار ہيں۔ بتيس سالہ بنگلہ ديشی دکاندار شيامال رابی کہتا ہے کہ وہ غير قانونی طور پر يورپ جانے کا خواہشمند نہيں۔ اس کا مزيد کہنا ہے، ’’ہم بھی انسان ہيں، ہمارے بھی کچھ حقوق ہيں۔ اگر تين ملکوں کے لوگوں کو آگے بڑھنے کی اجازت ہے، تو ہميں بھی يہ اجازت ملنی چاہيے۔‘‘
پناہ گزينوں کے درميان کشيدگی بڑھتی ہوئی
مشکل حالات اکثر اوقات غصے کو جنم ديتے ہيں۔ يہی وجہ ہے کہ کيمپوں ميں مہاجرين کے مختلف گروپوں کے مابين لڑائی جھگڑے کے مناظر معمول کی بات ہيں۔ نيپالی باشندے راج کا کہنا ہے کہ ايک ايرانی نے اس کے منہ پر مکا مارا تھا۔ گزشتہ جمعے کے روز ايک غير ساکاری تنظيم کے ڈاکٹروں نے دو شمالی افريقی پناہ گزيوں کے زخموں پر پٹی باندھی، جنہيں چاقو کے وار سے يہ زخم آئے تھے۔ کھانے کے تقسيم کے وقت سے اکثر جھگڑے ہوتے ہيں۔
احتجاج جو کبھی پر امن تھا، پر تشدد ہوتے ہوئے
گزشتہ ہفتے يونان اور مقدونيہ کی سرحد پر پھنسے ہوئے مہاجرين نے سوئی دھاگے کی مدد سے احتجاجاً اپنے منہہ سی ڈالے اور بھوک ہڑتال شروع کر دی تھی۔ تاہم يہ مظاہرے پر امن کچھ ہی وقت کے ليے رہے اور پھر جمعرات اور ہفتے کے روز مہاجرين کی حکام کے ساتھ جھڑپيں رپورٹ کی گئيں۔ ايک امدادی کارکن کے بقول پناہ گزين کافی برہم ہيں۔ کئی مہاجرين شراب نوشی بھی کرنے لگے ہيں۔
ہنگامی حالت
UNHCR سے وابستہ اليگزاندروس وولگارس کا کہنا ہے کہ وہاں صرف تيس ہی منٹ ميں حالات تبديل ہو سکتے ہيں۔ انہوں نے کہا، ’’ہم کسی چيز کی منصوبہ بندی نہيں کر سکتے، يہ ہنگامی صورتحال ہے اور ہماری کوشش صرف يہی ہے کہ لوگوں کو محفوظ رکھا جائے۔‘‘ وولگارس کا کہنا ہے کہ وہ پناہ گزينوں سے گزارش کر رہے ہيں کہ وہ يونانی دارالحکومت جائيں۔
’وہ چاہتے ہيں کہ ہم جنگ کا حصہ بنيں‘
بائيس سالہ يمنی پناہ گزين رامی التھاری اپنے فون پر صناء ميں تباہ کاريوں کے مناظر دکھا رہا ہے۔ وہ ديگر گيارہ يمنی پناہ گزينوں کے ساتھ سفر کر رہا ہے، جنہيں حوثی باغيوں کی صفوں ميں شامل ہونے پر مجبور کيا گيا تھا۔ ’’وہ چاہتے ہيں کہ ہم جنگ کريں ليکن ہم نہيں لڑيں گے۔ ہميں ورنہ سعودی مار ديں گے۔ اسی ليے جب تک سرحد نہيں کھلتی، ہم يہيں انتظار کريں گے۔‘‘
ايک اور الميہ
ايک يونانی ورکرز يونين کے ارکان نے ہفتے کے روز يہاں مختلف چيزيں تقسيم کيں۔ يونين کے صدر کا کہنا ہے کہ اگر اس مقام پر جلد ہی مسائل کا حل تلاش نہ کيا جا سکا، تو يہ اگلا Calais ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کے بقول وہاں ميسر سہوليات ناکافی ہيں اور موسم سرما کی آمد کے ساتھ مہاجرين اپنے مقاصد کے حصول کے ليے متبادل راستے تلاش کريں گے۔ انہوں نے مزيد کہا کہ اسمگلر بھی کافی چالاک ہوتے ہيں۔
’پلان بی‘ کيا ہے؟
مقدونيہ نے يونان کے ساتھ اپنی سرحد پر باڑ لگانے کا کام اتوار کی دن مکمل کر ليا ہے۔ يونان ميں Medecins du Monde کے صدر نيکيتاس کناکس کے بقول اس مقام پر پھنسے ہوئے لوگوں کی مدد کے ليے دنيا بھر سے لوگ موجود ہيں ليکن يونانی حکومت کا کوئی نمائندہ نہيں۔ انہوں نے کہا، ’’ہميں خدشہ ہے کہ آئندہ کچھ دنوں ميں سرحد مکمل طور پر بند کر دی جائے گی۔ اگر ہم سب کو ايتھنز منتقل کر بھی ديتے ہيں، تو پھر کيا ہو گا؟‘‘